خالدہ ضیا اور بھارت: ’غلام نہیں بنیں گے‘

بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کی سربراہ بیگم خالدہ ضیا طویل علالت کے بعد منگل کو 80 برس کی عمر میں وفات پاگئیں۔ بھارت کے حوالے سے خالدہ ضیا کی خارجہ پالیسی نسبتاً محتاط اور بعض اوقات متضاد رہی، اور انہوں نے ہمیشہ بنگلہ دیش کی خود مختاری کو ترجیح دی۔

وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کے طور پر خالدہ ضیا نے بھارت کے ساتھ زمینی راستوں کے ذریعے تجارت اور ٹرانزٹ روابط کی مسلسل مخالفت کی۔

انہوں نے بھارتی ٹرکوں کو بنگلہ دیش کی سڑکیں بنا ٹول استعمال کرنے کی اجازت کو ’غلامی‘ کے مترادف قرار دیا اور 1972 کے بھارت-بنگلہ دیش دوستی معاہدے کی تجدید کی مخالفت کی۔ خالدہ ضیا اس معاہدے کوملک کی خود مختاری پر قدغن کے طور پر دیکھتی تھیں۔

2018 میں ڈھاکہ میں منعقدہ ایک جلسے میں انہوں نے کہا کہ ’’ہم بنگلہ دیش کو بھارتی ریاست بنانے کی کوشش کی مخالفت کریں گے۔‘‘

خالدہ ضیا کا فوکس صرف ٹرانزٹ حقوق کی حفاظت تک محدود نہ رہا بلکہ انہوں نے اسے ملک کے لیے ٹھوس فائدے کے حصول کے لیے استعمال کیا۔ 2014 میں انہوں نے کہا کہ ٹرانزٹ کی اجازت کو ’تیستا واٹر اکارڈ‘ پر دستخط سے جوڑا جانا چاہیے تاکہ بھارت کے اثر کو محدود کیا جا سکے۔

ان کی تنقید بھارت کے فرکہ بیراج پر بھی رہی، جس نے 1975 میں گنگا کے پانی کا رخ ہُوگلی کی طرف موڑ دیا تھا۔

خالدہ ضیا کا کہنا تھا کہ یہ ڈھانچہ بنگلہ دیش کے لیے پانی کی کمی کا سبب بنتا ہے۔ 2007 میں انہوں نے بھارت پر الزام لگایا کہ اس نے جان بوجھ کر بیراج دروازے کھول کر ملک میں سیلاب پیدا کیا۔

ان کی بھارت مخالف پالیسی دفاعی میدان تک بھی پہنچی، اور 2002 میں انہوں نے بھارت کو نظر انداز کرتے ہوئے چین کے ساتھ دفاعی معاہدے کیے، جس میں ٹینک، فریگیٹس اور دیگر فوجی ساز و سامان شامل تھے۔ ان کے اس اقدام کا مقصد بھارتی اثر و رسوخ کو محدود کرنا تھا۔

بھارت نے اس اقدام کو براہ راست خطرے کے طور پر دیکھا اور ڈھاکہ حکومت پر شمال مشرقی ریاستوں میں علیحدگی پسندوں اور دہشت گردوں کو پناہ دینے کے الزامات لگائے۔

تاہم، خالدہ ضیا کے بھارت کے ساتھ تعلقات میں مثبت رویہ بھی دیکھا گیا۔ 1992 میں ٹن بیگھا کوریڈور معاہدے کے تحت ڈھاکہ کو دہاگرام-انگارپوٹا میں بھارت کی زمین سے مستقل رسائی حاصل ہوئی۔ 2006 میں بھارت کے دورے کے دوران انہوں نے تجارتی معاہدہ اور منشیات اسمگلنگ کے خلاف نیا معاہدہ بھی کیا۔

2012 کے بعد ان کے تعلقات میں تبدیلی دیکھی گئی، جب انہوں نے دہلی کا دورہ کر کے وزیر اعظم منموہن سنگھ سے ملاقات کی اور اس دوران وعدہ کیا کہ مستقبل کی بی این پی حکومتیں بنگلہ دیش کی زمین سے بھارت پر حملہ کرنے والے دہشت گرد گروپوں کے خلاف کارروائی کریں گی۔

یہ دورہ بی این پی کی پالیسیوں میں 2014 کے انتخابات سے پہلے ایک اہم حکمت عملی تبدیلی کے طور پر دیکھا گیا تھا۔

Similar Posts