غزہ امن معاہدے کے پہلے مرحلے کی توثیق کے بعد بے گھر فلسطینی خاندان شمالی غزہ کی جانب روانہ ہونا شروع ہو گئے، جنہیں وہ کئی ماہ قبل اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری خوفناک جنگ کے باعث چھوڑنے پر مجبور ہو گئے تھے۔
عالمی میڈیا کے مطابق یہ واپسی آج صبح اس وقت شروع ہوئی جب اسرائیلی افواج نے جنگ بندی معاہدے کے تحت، جو امریکی ثالثی سے طے پایا۔ اس معاہدے کا مقصد دو سال سے جاری تباہ کن جنگ کا خاتمہ ہے جس میں 67,000 سے زائد فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔
رپورٹ مطابق ہزاروں فلسطینی شہری غزہ کے ساحلی علاقے میں بلند سڑکوں پر پیدل سفر کرتے نظر آئے، جو دو برس کی شدید لڑائی کے بعد اپنے علاقوں کو لوٹنے کی کوشش کر رہے تھے۔
خان یونس میں 32 سالہ امير ابو ليادة نے بات کرتے ہوئے کہا کہ ”ہم اپنے علاقوں میں واپس جا رہے ہیں، زخموں اور غم کے ساتھ، لیکن ہم خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ کم از کم یہ دن دیکھنا نصیب ہوئی۔“ ’ان شا اللہ سب اپنے گھروں کو واپس جائیں گے۔ ہم خوش ہیں، چاہے ہم کھنڈرات میں لوٹیں، کم از کم یہ ہماری زمین ہے۔‘
غزہ کی رہائشی ایک بے گھر خاتون نبیلہ بصل نے آنکھوں میں آنسو لیے کہا جو اپنی زخمی بیٹی کے ہمراہ پیدل غزہ کی جانب سفر کر رہی تھیں۔ ”یہ ایک ناقابلِ بیان خوشی ہے، الحمدللہ!“ ”ہم بہت خوش ہیں کہ جنگ ختم ہوئی اور اذیت کا اختتام ہوا۔“
جنگ بندی معاہدے کے مطابق اسرائیل کو اب تین دن کے اندر اندر حماس کے قبضے میں موجود 48 زندہ یرغمالیوں میں سے باقی کو بازیاب کرانا ہے۔ ان کے بدلے میں اسرائیل 250 فلسطینی قیدی اور 1,700 جنگی قیدیوں کو رہا کرے گا۔
اس معاہدے کے تحت غزہ میں روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں ٹرکوں کے ذریعے خوراک اور طبی امداد بھیجی جائے گی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرقِ وسطیٰ کے ایلچی اسٹیو وٹکوف نے ہفتے کی صبح غزہ میں اسرائیلی فوج کی واپسی کا جائزہ لیا، جبکہ امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ ایڈمرل بریڈ کوپر بھی ان کے ہمراہ تھے۔