سیکیورٹی ذرائع نے کہا ہے کہ حالیہ واقعات دراصل افغان عبوری حکومت، بعض عسکری گروہوں (جس میں افغان طالبان اور فتنہ الخوارج جیسی تنظیمیں شامل ہیں) اور ان کی حمایت کرنے والے حلقوں کی طرف سے مسلط کیے گئے ہیں، جن کے پیچھے بعض حلقوں نے بیرونی اثر و نفوذ بشمول بھارت کا نام بھی لیا ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ پاکستان کا جوابی ردِ عمل دہشت گردانہ ٹھکانوں، تربیتی مراکز اور ان مخصوص عناصر تک محدود رہا ہے جو براہِ راست یا بلاواسطہ طور پر پاکستانی حدود میں جارحیت میں ملوث تھے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان کا مقصد افغان عوام یا عام شہریوں کو ہدف بنانا نہیں ہماری کارروائیاں صرف اُن ٹھکانوں اور نیٹ ورکوں کے خلاف ہیں جو پاکستان کے خلاف دہشت گردی اور حملوں میں براہِ راست ملوث ہیں۔
حکام نے مزید کہا کہ پاک فوج اور دیگر ادارے حدِ دفاع کی پاسداری کرتے ہوئے محتاط انداز میں کارروائی کر رہے ہیں تا کہ غیر متعلقہ افراد کو نقصان نہ پہنچے، اور اس کے ساتھ ساتھ مستقبل میں کسی بھی بیرونی جارحیت یا دہشت گردی کا جواب مزید مؤثر انداز میں دینے کا حق پاکستان کے پاس محفوظ ہے۔
ذرائع نے اس بات پر زور دیا کہ یہ تنازعہ دونوں ممالک کے عوام کے درمیان بنیادی اختلاف نہیں بلکہ ان عناصر کے خلاف ہے جو بیرونی سرپرستی میں خطے میں عدم استحکام پیدا کر رہے ہیں۔
بیانیے کے مطابق مقامی امن بحال کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مسئلے کو صحیح فریقین اور اداروں تک محدود رکھتے ہوئے حل کیا جائے۔