حماس کا غزہ امن معاہدے پر دستخط نہ کرنے کا عندیہ، فرانسیسی میڈیا کا دعویٰ

حماس نے مصر میں ہونے والی غزہ امن معاہدے پر دستخط کی تقریب میں شرکت نہ کرنے کا عندیہ دیا ہے. ساتھ ہی اپنے اراکین کے غزہ چھوڑنے اور غیر مسلح ہونے کی تجاویز کو بھی مسترد کر دیا ہے۔

انڈیا ٹوڈے نے فرانسیسی ایجنسی اے ایف پی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ حماس نے مصر میں مجوزہ غزہ امن معاہدے پر دستخط کی تقریب میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق حماس نے معاہدے میں شامل بعض نکات، خصوصاً ارکان کے غزہ چھوڑنے اور غیر مسلح ہونے کی شرائط کو ”غیر منطقی“ اور ”بے معنی“ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حماس کے ایک سینئر رہنما نے اے ایف پی کو بتایا کہ اس مجوزہ منصوبے کے تحت حماس کے ارکان کو غزہ سے نکالنے کی تجویز ”غیر منطقی“ اور ”بے معنی“ ہے۔ جس کی وجہ سے اس معاہدے کا مستقبل اب غیر یقینی ہو گیا ہے۔

حماس کے سیاسی بیورو کے رکن حسام بدران نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ ”چاہے وہ حماس کے رکن ہوں یا نہ ہوں، فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کرنے کی بات بالکل غیر منطقی ہے۔“

انہوں نے مزید کہا کہ ”منصوبے کے دوسرے مرحلے پر مذاکرات مشکل ہوں گے کیونکہ اس میں کئی پیچیدگیاں اور سنجیدہ مسائل شامل ہیں۔“


AAJ News Whatsapp

اسی حوالے سے حماس کے سینئر رہنما ڈاکٹر باسم نعیم نے اسکائی نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں واضح کیا کہ حماس غزہ کا سیاسی کنٹرول چھوڑنے پر تو آمادہ ہے لیکن مکمل اور جامع معاہدہ طے پانے تک وہ ہتھیار نہیں ڈالے گی۔

ڈاکٹر نعیم نے کہا کہ ”ہم حکومت چھوڑنے کے لیے تیار ہیں، ہم کسی بھی حکومتی ادارے سے مکمل طور پر علیحدہ ہونے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن جہاں تک حماس کا تعلق ہے، بطور فلسطینی تحریکِ آزادی، میں سمجھتا ہوں کہ کوئی بھی حماس کو نظر انداز یا ختم نہیں کر سکتا۔“

انہوں نے مزید کہا کہ ”ہمارے ہتھیار صرف ایک آزاد فلسطینی ریاست کے حوالے کیے جائیں گے اور ہمارے جنگجوؤں کو قومی فلسطینی فوج میں ہی ضم کیا جائے گا۔ کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ ہمیں اس تسلط کے خلاف ہر ممکن مزاحمت کے حق سے محروم کرے۔“

اگرچہ یہ بیانات مذاکرات کے تناظر میں سخت ہیں لیکن مصر کے شہر شرم الشیخ میں بدھ کو ہونے والے معاہدے کے فریقین فی الحال اس مؤقف کو نظر انداز کر سکتے ہیں۔ کیونکہ اس وقت سب سے بڑی کامیابی یہی مانی جا رہی ہے کہ لڑائی رک گئی ہے، یرغمالیوں کی رہائی متوقع ہے اور غزہ کے شہری اب اسرائیلی بمباری کے خوف کے بغیر سکون کی نیند سو سکیں گے۔

تاہم رپورٹ کے مطابق حماس کے ایک سینئرعہدیدار نے اشارہ دیا کہ اس منصوبے کے حوالے سے اب بھی اہم سیاسی رکاوٹیں موجود ہیں۔ جس میں غیر مسلح ہونا، جو کہ منصوبے کی ایک کلیدی شرط ہے، کسی صورت قابل قبول نہیں ہے۔

دوسری جانب اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے عندیہ دیا ہے کہ اگر حماس غیر مسلح نہ ہوئی تو اسرائیل اپنی فوجی کارروائی دوبارہ شروع کر سکتا ہے۔

واضح رہے کہ جنگ بندی معاہدے کے ابتدائی مرحلے کا نفاذ ہوتے ہی اسرائیلی فوج غزہ کے کچھ علاقوں سے پیچھے ہٹ گئی اور بے گھر فلسطینی خاندانوں کی واپسی شروع ہوچکی ہے۔

معاہدے کے مطابق حماس پیر کو دوپہر تک 47 اسرائیلی یرغمالیوں (زندہ و مردہ ) کو رہا کرے گی۔ بدلے میں اسرائیل 250 قیدیوں اور زیر حراست 1700 فلسطینی باشندوں کو رہا کرے گا۔

Similar Posts