اس بارے میں ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ یہ ویکسین پوری دنیا میں کہاں کہاں استعمال ہو رہی ہے ۔ امریکا ، کینیڈا، یورپ، برازیل آسٹریلیا اور چین میں یہ ویکسین لگائی جارہی ہے ۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ ترقی یافتہ ملکوں میں اس ویکسین کا استعمال بڑی تعداد میں ہو رہا ہے جب کہ پسماندہ اور غریب ملکوں میں بہت کم لگ رہی ہے ۔
اس ویکسین کے خلاف یہ پراپیگنڈہ ہو رہا ہے کہ اس ویکسین کو جاپان ، ڈنمارک اور آئرلینڈ نے شروع کیا لیکن بعد میں اسے ترک کردیا لیکن اہم سوال یہ ہے کہ کیا آج ان ممالک میں یہ ویکسین لگ رہی ہے یا نہیں ۔
سچ یہ ہے کہ آج ان تمام ممالک نے اس ویکسین کو دوبارہ سے استعمال کرنا شروع کردیا ہے ۔ جب کہ ماضی میں ان ممالک کو میڈیا اور سوشل میڈیا کے دباؤ پر اسے ترک کرنا پڑا ۔ اب سوال یہ ہے کہ HPVوائرس کیا ہے ؟ یہ ایک ایسا وائرس ہے جو زیادہ تر جنسی تعلقات کی وجہ سے منتقل ہوتا ہے ۔
لیکن اس کے علاوہ بھی یہ منتقل ہو سکتا ہے ۔ متاثرہ مریض کا تولیہ استعمال کرنے سے بھی یہ وائرس منتقل ہو سکتاہے۔ سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ اس وائرس کی وجہ سے کینسر ہو سکتا ہے ۔
اس وائرس کی 6مختلف اقسام ہیں اس میں ایک بہت خطرناک قسم وہ ہے جسے سروائیکل کینسر کہتے ہیں جوکہ زیادہ تر خواتین میں ہوتا ہے ۔ لیکن یہ مردوں اور خواجہ سراء میں بھی ہوسکتا ہے یہ خواتین میں کینسر کی چوتھی بڑی وجہ ہے ۔
2020میں چھ لاکھ نئے کینسر کے کیسز سامنے آئے اور تین لاکھ چالیس ہزار خواتین اس کی وجہ سے جاں بحق ہوئیں ۔ جب کہ مردوں میں گلے کا کینسر ہونے کا خطرہ ہوتاہے ۔ قابل غور بات یہ ہے کہ اس کینسر کی وجہ سے 90فیصد اموات تیسری دنیا میں ہو رہی ہیں۔ اس وقت 125ملکوں میں یہ ویکسین لگ رہی ہے۔
2023کے سروے کے مطابق یہ ویکسین 2006میں بنی تھی ، دو وائرس ایسے ہیں جو 70فیصد کینسر کا باعث بنتے ہیں زیادہ تریہ ویکسین خواتین کو لگائی جاتی ہیں خاص طور پر 9سے 14سال کی عمر کی بچیوں کو اس کے علاوہ یہ ویکسین 45سال کی عمر تک بھی لگائی جاتی ہے ۔
جب یہ وائرس انسانی جسم میں جاتا ہے تو یہ اپنے آنے کا اعلان کردیتا ہے ۔ چنانچہ انسانی امیون سسٹم فوراً چوکنا ہو جاتا ہے ۔ یہ اسے مارنے کی کوشش کرتا ہے اس کے پاس پرانے ریکارڈ ہوتے ہیں جس کی وجہ سے اسے پتہ ہوتا ہے کہ اس نے اس وائرس کو کس طرح سے مارنا ہے ۔
امیون سسٹم اپنے ریکارڈ کو چیک کرتا ہے اور اس پر اٹیک کرتا ہے ۔ اس طرح سے پانچ چھ دنوں میں اس وائرس کو ختم کردیتا ہے ۔ اگر یہ وائرس انسانی جسم میں پہلے ہی آچکا ہو ۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ اگر ایک نیا وائرس ابھی ہماری باڈی میں آیا ہی نہیں تو ہمارا امیون سسٹم مدافعتی نظام اسے کیسے پہچانے گا:
چنانچہ اس صورت حال میں یہ نیا وائرس بڑا خطرناک ہو جاتا ہے ۔ کیونکہ امیون سسٹم جب تک سوچتا ہے اتنی دیر میں وائرس امیون سسٹم پر حاوی ہو جاتا ہے ۔ اس کے توڑ کے لیے سائنسدانوں نے دو طرح کے ویکسین بنائے ہیں ۔ سنگل اور ڈبل لیکن ان تمام ٹرائل سے کبھی بھی کوئی موت واقع نہیں ہوئی، W.H.Oکے مطابق 2023میں 52ملکوں کو یہ ویکسین فراہم کی گئی ۔
برطانیہ میںیہ ویکسین 2008سے لگ رہی ہے ۔ اب ایک ریسرچ نے بتایا ہے کہ اس ویکسین کے لگنے کی وجہ سے برطانیہ میں 87فیصد سروائیکل کینسر کم ہو گئے ہیں ۔ حیرت انگیز اور قابل تعریف بات یہ ہے کہ دنیا میں ایک واحد ملک ایسا ہے جس نے اس کینسر کا مکمل طور پر خاتمہ کردیا ہے اور وہ ہے آسٹریلیا کیونکہ اس نے اس ویکسین کو ابتداء ہی سے اپنا لیا تھا۔
2006سے یہ ویکسین کروڑوں اشخاص کو لگ چکی ہے ۔ پاکستان میں اس وقت امریکن اور چائینز ویکسین دستیاب ہیں ۔ لیکن ہمارے ہاں چائینہ کی بنی ہوئی ویکسین ہی استعمال ہورہی ہے اس ویکسین کے ہر طرح کے کلینکل ٹیسٹ ہو ئے ہیں جس کے کوئی مضر اثرات سامنے نہیں آئے ۔
غیر ترقی یافتہ ملکوں میں بھارت ، بنگلہ دیش ، پاکستان ، نیپال وغیرہ سرفہرست ہیں جن میں یہ ویکسین بہت کم لگی ہے ۔ جب کہ ناروے میں 94فیصد ، سویڈن90فیصد ، امریکا 79فیصد ، برطانیہ 74فیصد اور کینیڈا میں اس کی شرح 77فیصد ہے ۔W.H.Oکا کہنا ہے کہ اس نے 2030تک دنیا بھر کی 90فیصد خواتین کو یہ ویکسین لگانی ہے ۔