کئی برسوں تک امریکہ کے لیے پاکستان کی بنیادی اسٹریٹیجک اہمیت اس کا ایک سیکیورٹی پارٹنر کے طور پر کردار رہا ہے،پہلے سوویت یونین کے افغانستان پر قبضے کے دوران اور پھر نام نہاد “وار آن ٹیرر” میں۔لیکن یہ تعلقات بتدریج ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئے جب امریکی اسٹریٹیجک حلقوں کے بڑھتے ہوئے طبقے اور خود صدر ٹرمپ نے الزام لگایا کہ اسلام آباد دھوکہ دہی سے کام لے رہا ہے اور اس پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا، خاص طور پر اس کے بعد جب امریکی فورسز نے اسامہ بن لادن کو پاکستان کے ایبٹ آباد میں ڈھونڈ نکالا۔
مگر حالیہ ماہ ستمبر کے اوائل میں وزیراعظم پاکستان کی رہائش گاہ پر ہونے والی ایک ہائی پروفائل دستخطی تقریب نے امریکہ کے لیے پاکستان کی نئی پیشکش کی ایک جھلک دکھا دی۔ 8 ستمبر کو شہباز شریف اور پاکستان کے آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر کی موجودگی میں اسلام آباد اور واشنگٹن کے سینئر حکام نے ایک دوسرے کے ساتھ دو مفاہمتی یادداشتوں (MoUs) پر دستخط کیے ۔
ایک اہم معاہدہ جس کے تحت پاکستان امریکہ کو اہم معدنیات اور نایاب دھاتی عناصر فراہم کرے گا … ٹرمپ کے جولائی کے اس وعدے کے بعد سامنے آیا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ مل کر ملک کے “وسیع تیل کے ذخائر” کو ترقی دیں گے۔ ایک امریکی کمپنی پاکستان کے شعبہ معدنیات میں 500 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہی ہے۔
اب تک پاکستان کی حکمتِ عملی کامیاب دکھائی دے رہی ہے، ایسے وقت میں جب امریکہ کے ساتھ تعلقات کی بحالی کو زیادہ تر تجزیہ کار ناقابلِ تصّور سمجھ رہے تھے۔ یہ وہی ٹرمپ ہیں جنہوں نے 2018 ء میں الزام لگایا تھا کہ اسلام آباد نے واشنگٹن کو “صرف جھوٹ اور فریب” دیا ہے۔ وہ اس سال کے اوائل میں دوبارہ اقتدار میں آگئے۔
مارچ میں امریکی کانگریس سے خطاب کرتے ہوئے ٹرمپ نے پاکستان کا “دہشت گردی کے خلاف تعاون” پر شکریہ ادا کیا اور ان کے عسکری رہنماؤں نے بھی پاکستان کو امریکی حکومت کے ساتھ شراکت داری کرنے پر سراہا۔ جون میں بھارت کے ساتھ چار روزہ عسکری تنازع کے بعد پاکستان نے صدرِ امریکہ کو نوبل امن انعام کے لیے عوامی طور پر نامزد کر دیا۔پاک بھارت جنگ کے خاتمے کا کریڈٹ واشنگٹن اور اسلام آباد، دونوں نے ٹرمپ کی ثالثی کو دیا۔
ٹرمپ نے پاکستانی مصنوعات پر 19 فیصد ٹیرف عائد کیا ہے جو جنوبی ایشیا کے تمام ممالک میں سب سے کم ہے۔ بھارت جو پاکستان کا حریف اور گزشتہ دو دہائیوں سے امریکہ کا پسندیدہ پارٹنر رہا ہے، اس پر 50 فیصد ٹیرف لگایا گیا ہے۔ امریکی صدر نے فیلڈ مارشل عاصم منیر کی وائٹ ہاؤس میں میزبانی بھی کی۔یہ پہلا موقع ہے کہ کسی پاکستانی آرمی چیف کو، جو سربراہِ ریاست نہیں، وہاں مدعو کیا گیا۔ پھر ستمبر کے اواخر میں شہباز شریف 2019 ء کے بعد وائٹ ہاؤس کا دورہ کرنے والے پہلے پاکستانی وزیراعظم بن گئے
یہ ٹرمپ کی جانب سے ایک حیران کن یوٹرن ہے اور ماہرین کا کہنا ہے کہ اس ضمن میں پاکستان کی معدنیات کی پیشکش ایک کلیدی محرک کردار ادا کر سکتی ہے۔ واشنگٹن ایسی معدنیات اور نایاب دھاتی عناصر (Rare earth elements and critical minerals)کے ذرائع کی تلاش میں ہے جنہیں وہ صنعت، دفاع اور صاف توانائی کی منتقلی کے لیے ناگزیر سمجھتا ہے۔ اس تناظر میں پاکستان ایک پُرکشش مگر ابھی تک غیر آزمودہ سپلائر کے طور پر سامنے آسکتا ہے۔
عسکری امور کے ایک ماہر، سلیم باسط نے عالمی میڈیا کو بتایا’’یہ ایک اسٹریٹیجک ہینڈ شیک ہے جو معاشی مواقع، وسائل کی سفارتکاری اور علامتی توازن کے ساتھ لپٹا ہوا ہے۔ یہ صرف زمین میں دبے پتھروں کے بارے میں نہیں بلکہ یہ اس بات پر ہے کہ مستقبل کے بنیادی ڈھانچے پر کن کا کنٹرول ہوگا۔ پاکستان کے لیے یہ اپنی معدنی داستان کو قومی وقار اور ورثے کے ساتھ جوڑنے کا موقع ہے۔ امریکہ کے لیے وسائل کی یہ سیاست کی عالمی شطرنج کی بساط پر ایک اسٹریٹیجک چال ہے۔‘‘
مفاہمتی یادداشت سے کان کنی تک
ماہ اپریل میں پاکستان منرلز سمٹ کے دوران وزیرِاعظم شہباز شریف نے دعویٰ کیا تھا کہ اگر پاکستان ان معدنیدھاتی ذخائر کو بروئے کار لائے، جن کی مالیت ان کے مطابق ’’کھربوں ڈالر‘‘ ہے، تو یہ پاکستان کی معیشت بدل سکتا ہے جو اس وقت 130 ارب ڈالر کے بیرونی قرض کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے۔
پانچ ماہ بعد کلیدی معاہدہ فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن (FWO) جو فوج کے زیرِ انتظام انجینئرنگ اور تعمیراتی ادارہ ہے اور جس کی سربراہی ایک ٹو اسٹار جنرل کرتے ہیں اور امریکی کمپنی یونائیٹڈ اسٹریٹجک میٹلز (USSM) کے درمیان طے پایا۔
یہ کمپنی 2018ء میں میسوری میں قائم کی گئی تھی۔یونائیٹڈ اسٹریٹجک میٹلز کا کہنا ہے کہ وہ استعمال شدہ لیتھیم آئن بیٹریوں سے اہم معدنیات ری سائیکل کرنے میں مہارت رکھتی ہے اور کوبالٹ، نکل اور تانبے جیسے دھاتوں کی کان کنی پر کام کرتی ہے۔وزیراعظم کے دفتر کے مطابق یہ شراکت داری فوراً پاکستان سے “فوری دستیاب معدنیات” جیسے اینٹی مونی، تانبا، سونا، ٹنگسٹن اور نایاب دھاتی عناصر کی برآمد شروع کر دے گی۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ اس مفاہمتی یادداشت کا مقصد پاکستان میں ایک خصوصی ریفائنری کے قیام کی راہ ہموار کرنا ہے تاکہ ایسی معدنیاتی اور دھاتی مصنوعات تیار کی جا سکیں جو امریکی مارکیٹ کی تیزی سے بڑھتی ہوئی طلب پورا کریں گی۔”
وزیراعظم ہاؤس کے مطابق اس معاہدے کے پہلے مرحلے میں تقریباً 500 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری پاکستان کے اہم معدنیات کے شعبے میں متوقع ہے، جبکہ اگلے مراحل میں ملک میں وسیع تر قدرتی وسائل کی تلاش، کان کنی اور پراسیسنگ پر توجہ دی جائے گی۔’’یہ مفاہمتی یادداشت کوئی باضابطہ کان کنی کا لائسنس نہیں بلکہ ماہرین کے مطابق یہ ایک ابتدائی مرحلے کا معاہدہ ہے جو محض دلچسپی کا اظہار کرتا ہے۔
اسلام آباد میں قائم کیپیٹل اسٹریٹیجیز گروپ کے چیف آپریٹنگ آفیسر اور واشنگٹن ڈی سی میں قائم “کریٹیکل منرلز فورم” کے مشیر زین کاظمی کہتے ہیں: ’’یونائیٹڈ اسٹریٹجک میٹلز کے نقطہ نظر سے ایک مفاہمتی یادداشت (MoU) ابتدائی مرحلے میں نیک نیتی کا اظہار کرتی ہے۔ اور چونکہ یہ مفاہمتی یادداشت عمومی نوعیت کی ہے، اس لیے جو بھی ذخائر سب سے جلد زیادہ امکانات دکھائیں گے وہ تیزی سے آن لائن آ سکیں گے۔’’
ایک سینئر سرکاری پاکستانی جیولوجسٹ جو اس معاہدے کے بارے میں جانتے ہیں ، کہتے ہیں کہ توجہ اسٹریٹیجک منرلز اور نایاب دھاتی عناصر” پر ہے اور ایسے ذخائر کی طرف اشارہ کیا جیسے تانبا اور اینٹیمونی، جن پر ایف ڈبلیو او پہلے ہی کام کر رہا ہے۔انہوں نے بتایا:’’ایف ڈبلیو او پہلے ہی خیبر پختونخوا کے وزیرستان علاقے میں کانیں چلا رہا ہے۔ اس کے پاس بلوچستان کے چاغی بیلٹ اور گلگت بلتستان کے علاقے میں بھی ایکسپلوریشن لائسنس موجود ہے۔لیکن انہوں نے خبردار کیا کہ معدنی منصوبے عموماً طویل مدتی ہوتے ہیں، جو پانچ سے پندرہ سال تک جاری رہ سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا:معدنیات کی ترقی کے منصوبے عام طور پر پایہ تکمیل تک پہنچتے ہوئے طویل وقت لیتے ہیں۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ اس مفاہمتی یادداشت کے تحت منصوبہ یہ ہے کہ پہلے مرحلے میں اینٹیمونی، تانبا اور دیگر فوری دستیاب مصنوعات برآمد کی جائیں، پھر درمیانی مدت میں پراسیسنگ پلانٹس لگائے جائیں اور آخر میں مختلف علاقوں میں ایکسپلوریشن کی جائے۔’’
نایاب دھاتی عناصر اور اہم معدنیات
چین اور امریکہ کے درمیان تیزی سے بڑھتی ہوئی ٹیکنالوجی کی دوڑ نے نایاب زمینی عناصر اور دیگر اہم معدنیات کی طلب کو بے پناہ بڑھا دیا ہے۔نایاب زمینی معدنیات 17 معدن کا ایک گروپ ہیں جو ہر چیز میں استعمال ہوتے ہیں … اسمارٹ فونز اور الیکٹرک گاڑیوں سے لے کر سیمی کنڈکٹرز اور دفاعی نظام تک۔اپنے نام کے باوجود یہ زمین کی پرت میں خاص طور پر نایاب نہیں لیکن یہ اکثر منتشر یا دیگر عناصر کے ساتھ ملے ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کا نکالنا تکنیکی طور پر مشکل اور مہنگا ہو جاتا ہے۔
امریکی جیولوجیکل سروے (USGS) اور امریکی محکمہ داخلہ نے امریکہ کے لیے درکار ’’اہم معدنیات اور دھاتوں‘‘ کی ایک فہرست مرتب کی ہے ۔
تازہ ترین فہرست میں 54 معدنی و دھاتی عناصر شامل ہیں جن میں تانبا اور چاندی بھی شامل ہیں ۔اور ان میں سے بہت سے عناصر امریک کی صاف توانائی کی منتقلی اور ہائی ٹیک مینوفیکچرنگ کے لیے ناگزیر ہیں۔جنوری 2025 ء میں جاری کردہ اپنے معدنیات کے خلاصے میں امریکی جیولوجیکل سروے نے پندرہ ممالک اور خطوں کی فہرست دی جن کے نایاب قدرتی ذخائر نقشہ بند کیے گئے ۔ پاکستان ان میں شامل نہیں تھا۔
پاکستان کے معدنی ذخائر کہاں ہیں؟
ریاستی ملکیت رکھنے والی پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ (PPL) کے سابق منیجنگ ڈائریکٹر اور اب کراچی میں مقیم کنسلٹنٹ، معین رضا خان کا اندازہ ہے کہ پاکستان کی زمین کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ ایسی چٹانوں پر مشتمل ہے جن میں اہم معدنیات اور دھاتی عناصر کی موجودگی کا قوی امکان ہے۔
پاکستان کے بیشتر معدنی امکانات بلوچستان، خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان کے دور دراز پہاڑی علاقوں میں ہیں ۔ یہ سب علاقے دشوار گزار جغرافیہ اور سنگین سکیورٹی مسائل کا سامنا کر رہیے ہیں، یا بعض صورتوں میں دونوں چیلنجز ایک ساتھ موجود ہیں۔معین رضا کا کہنا ہے، کچھ خطے یا تو جغرافیائی مشکلات یا سیاسی مسائل، یا دونوں کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔
بلوچستان جو پاکستان کے تقریباً پچیس کروڑ میں سے صرف ڈیرھ کروڑ لوگوں کا گھر ہے۔یہ بے پناہ قدرتی وسائل رکھنے کے باوجود پاکستان کا غریب ترین صوبہ ہے۔خیبر پختونخوا بھی تشدد کی لہر کا شکار رہا ہے۔ پاکستان الزام لگاتا ہے کہ مسلح گروہ افغانستان سے قبائلی اضلاع میں داخل ہوتے ہیں جن میں جنوبی اور شمالی وزیرستان بھی شامل ہیں اور جہاں وسیع معدنی ذخائر موجود ہونے کا یقین کیا جاتا ہے۔معاشی لحاظ سے سب سے اہم بلوچستان کے تانبے کے ذخائر ہیں جو ’’سینڈک‘‘ اور ’’ریکو ڈیک‘‘ میں ملتے ہیں۔
سینڈک جو ایران کی سرحد کے قریب واقع ہے، 1970 ء کی دہائی میں دریافت ہوا تھا۔ 2000 ء کی دہائی کے اوائل میں چین کی کمپنی، میٹالرجیکل کنسٹرکشن کارپوریشن (MCC) کے تحت اس میں تجارتی کان کنی شروع ہوئی۔ 2024 ء کے تانبے کی برآمدات کے اعدادوشمار کے مطابق سینڈک نے 842 ملین ڈالر کا حصہ ڈالا جو پچھلے سال کے 777 ملین ڈالر سے زیادہ ہے۔
ریکو ذیک کو جو سینڈک سے 150 کلومیٹر سے بھی کم فاصلے پر ہے، دنیا کے سب سے بڑے غیر ترقی یافتہ ذخائر میں شمار کیا جاتا ہے ۔کہا جاتا ہے ، اس میں تانبا اور سونا وافر مقدار میں پایا جاتا ہے۔یہ منصوبہ کینیڈا کی کمپنی، بیریک مائننگ تیار کر رہی ہے جس کے پاس 50 فیصد حصہ ہے، جبکہ باقی حصہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں اور ریاستی اداروں کے درمیان تقسیم ہے۔
معین رضا کا کہنا ہے، ریکو ڈیک دنیا کے سب سے بڑے غیر ترقی یافتہ تانبا اور سونا ذخائر میں سے ایک ہے۔ ثابت شدہ اور ممکنہ ذخائر کا تخمینہ ہے کہ ان میں تقریباً 1.5 کروڑ ٹن تانبا اور 2.6 کروڑ اونس سونا موجود ہے۔انہوں نے اندازہ لگایا کہ ان ذخائر میں موجود دھاتوں کی مالیت 190 ارب ڈالر سے زائد ہے، جن میں تانبا تقریباً 138 ارب ڈالر اور سونا تقریباً 53 ارب ڈالر کا ہے۔
لیکن ٹھوس اعداد و شمار محدود ہیں۔مثال کے طور پر پاکستان منرل ڈویلپمنٹ کارپوریشن کے سابق ڈائریکٹر ،محمد یعقوب شاہ کہتے ہیں کہ ارضیاتی اعتبار سے پاکستان میں بڑے معدنی امکانات موجود ہونے کا غالب امکان ہے۔تاہم ان کا مزید کہنا ہے کہ ان امکانات کو باقاعدہ اور سائنسی بنیادوں پر جانچنے کے لیے تفصیلی ایکسپلوریشن (کھوج) درکار ہے۔
کریٹیکل منرلز فورم کے مشیر زین کاظمی نے بھی اس امر سے اتفاق کیا۔ ان کا کہنا ہے’’ذخائر کے حجم کے لحاظ سے ریکو ڈیک کے علاوہ پاکستان میں کوئی بھی ذخیرہ ایسا نہیں جس کے مکمل طور پر پیمائش شدہ ریزروز موجود ہوں۔ پاکستان کی معدنی صنعت ابھی نوزائیدہ اور ترقی پذیر ہے، تمام منصوبے گرین فیلڈ ہیں، اس لیے ان ذخائر کی تصدیق میں وقت لگے گا۔’’
وعدے بمقابلہ ثبوت
اگرچہ حکومت نے امریکی کمپنیوں کے ساتھ مفاہمتی یادداشتوں کو سراہا ہے مگر اس کے ناقدین نے ’’بڑے دعوی‘‘کرنے کے انداز پر تنقید کی اور حکومت کو احتیاط برتنے کا کہا۔وجہ یہ ہے، ماضی میں بھی ایسے کئی دعوی کیے گئے جو بعد ازاں حقیقت کا روپ نہ دھار سکے۔
یہ شکوک و شبہات ماضی کی مثالوں پر مبنی ہیں۔ 31 جولائی کو ٹرمپ نے ٹروتھ سوشل پر پوسٹ کیا کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ مل کر ملک کے تیل کے ذخائر کو ترقی دے گا … ایک اعلان جس نے کئی مبصرین کو حیران کر دیا کیونکہ پاکستان کے معلوم شدہ خام تیل کے ذخائر محدود ہیں۔پاکستان اپنے درآمدی بل کا تقریباً 31 فیصد ایندھن پر خرچ کرتا ہے۔ اور اپنی تیل کی ضرورت کا تقریباً 80 فیصد درآمد کرتا ہے۔
مئی 2019 ء میں اْس وقت کے وزیرِاعظم عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ بحیرہ عرب میں ایک کنسورشیم کی ڈرلنگ نے ‘‘آئل اینڈ گیس جیک پاٹ’’ مارا ہے جو پاکستان کی ایندھن کی ضروریات دہائیوں تک ختم کر دے گا۔لیکن جب یہ کنویں تجارتی لحاظ سے قابلِ عمل ذخائر فراہم نہ کر سکے تو جلد ہی چھوڑ دیے گئے۔
اسی طرح ستمبر 2024 ء میں غیر مصدقہ دعوے دوبارہ سامنے آئے جب ایک سینئر افسر نے کہا کہ قدرتی وسائل کے ایسے ذخائر دریافت ہوئے ہیں جو ملک کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔ ماہ ستمبرکے اوائل میں ایک ریٹائرڈ نیول آفیسر نے کہا کہ پاکستان اور چین نے ایک مشترکہ سروے کے دوران ممکنہ طور پر بڑے گیس ذخائر کی نشاندہی کی ہے۔مگر یہ دعوے بھی تاحال غیر مصدقہ ہیں۔
کراچی میں مقیم تجزیہ کار معین رضا خان نے یہ سوال اٹھایا کہ کیا امریکی کمپنی، یونائیٹڈ اسٹریٹجک میٹلز کے پاس وہ مہارت موجود ہے جو پاکستان کو معدنی خواب پورے کرنے کے لیے درکار ایکسپلوریشن اور کان کنی کے عمل میں مدد دے سکے؟
یونائیٹڈ اسٹریٹجک میٹلز کے اپنے پروفائل میں زور دیا گیا ہے کہ وہ استعمال شدہ لیتھیم آئن بیٹریوں سے دھاتوں کو ری سائیکل کرنے اور اپنے میسوری ہیڈکوارٹر میں کوبالٹ کی کانوں سے نکلنے والے ’’ٹیلنگز‘‘ کو دوبارہ پراسیس کرنے پر توجہ دیتی ہے۔ ’’ٹیلنگز‘‘ وہ باقی ماندہ موادہے جو کان کنی اور معدنیات کی پراسیسنگ کے بعد بچ جاتا ہے، اور اس میں اکثر دیگر دھاتوں کی باقیات بشمول نایاب دھاتی عناصر شامل ہوسکتی ہیں۔
معین رضا کا خیال ہے ’’ایسا لگتا ہے کہ کم از کم فی الحال امریکہ کا مقصد صرف معدنی کنسنٹریٹ کو برآمد کرنا ہے۔ اور امریکی کمپنی ایک ٹریڈنگ کمپنی کی طرح کام کر رہے ہیں نہ کہ ایک مائننگ کمپنی کی طرح۔‘‘اس کے باوجود زین کاظمی کہتے ہیں، یونائیٹڈ اسٹریٹجک میٹلز کے ساتھ ایک ایم او یو ابتدائی مرحلے میں ایک مفید اشارہ ہے جو بڑے اور بہتر معیار کے سرمایہ کاروں کو متوجہ کر سکتا ہے۔ ان کے بقول یہ اس بات کی علامت ہے کہ پاکستان کے مائننگ سیکٹر میں اعلیٰ معیار کی دلچسپی سامنے آئی ہے، اور یہ دیگر اعلیٰ سطحی معدنیات پراسیسرز اور مائننگ انویسٹرز کے لیے پاکستانی مارکیٹ کے دروازے کھول سکتا ہے۔
معدنیات اور جغرافیائی سیاسی توازن
امریکہ کے ساتھ اہم معدنیات کا یہ معاہدہ لیکن پاکستان کی جغرافیائی سیاسی توازن رکھنے کی صلاحیت کو پہلے سے کہیں زیادہ آزما سکتا ہے۔گزشتہ دہائی میں پاکستان نے ’’چین-پاکستان اکنامک کوریڈور‘‘ (CPEC) کے ذریعے چین کے ساتھ اپنے اقتصادی تعلقات کو گہرا کیا ہے جو 62 ارب ڈالر کے بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کا نیٹ ورک ہے۔
خاص طور پر بلوچستان میں قوم پرست تنظیمیں یہ پروپیگنڈا کر رہی ہیں کہ چینی کمپنیاں مقامی وسائل چرا رہی ہیں۔ اسی دعوی کے بل پر قوم پرست باغی جنگجو بارہا چینی اہلکاروں اور تنصیبات پر حملے کر چکے ۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق تقریباً بیس ہزار چینی شہری پاکستان میں مقیم ہیں۔ ان میں سے کم از کم بیس افراد 2021 ء کے بعد سے ان منصوبوں سے منسلک حملوں میں ہلاک ہو چکے۔
بیجنگ کے لیے اپنے شہریوں کی سکیورٹی اولیّں تشویش ہے۔ اور ماہرین خبردار کرتے ہیں ، بلوچ علاقوں میں امریکی سرمایہ کاری کی آمد بلوچستان جیسے صوبوں میں پہلے سے پیچیدہ صورتِ حال کو مزید مشکل بنا سکتی ہے۔
امریکی ایڈوائزری فرم ،ایشیا گروپ کے پرنسپل،عذیر یونس کا کہنا ہے، معدنیات سے متعلق مفاہمتی یادداشت اس بات کا اشارہ ہے کہ پاکستان اسٹریٹیجک شعبوں میں مغربی سرمایہ کاروں کے لیے دروازے کھول رہا ہے اور بلوچستان صرف چینی اثرورسوخ کی جاگیر نہیں رہے گا۔
تاہم یونس یہ بھی کہتے ہیں ’’چینیوں کے لیے یہ ایک مثبت پیشرفت بھی ہے کیونکہ ان شعبوں میں امریکی مفادات کی شمولیت بلوچستان میں بغاوت کم کرنے میں مدد دے سکتی ہے، جسے علاقائی پراکسی گروپ ہوا دے رہے ہیں۔ سیدھی سی بات ہے کہ نئی صورت حال میں کسی بھی حملہ آور کو صرف پاکستان اور چین ہی نہیں بلکہ امریکہ کے غصّے کا بھی خطرہ مول لینا پڑے گا۔‘‘
ماہرین کے مطابق اگر پاکستان اور اس کے صوبوں کی معیشت کو امریکی سرمایہ کاری سے فائدہ ہوتا ہے تو اس سے چین کو بھی بالآخر فائدہ ہوگا۔عذیر یونس کا کہنا ہے، اس سے ایسے تجارتی مواقع کھل سکیں گے جو پاکستان کو بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کے لیے چین کے سرمایہ کاروں اور قرض دہندگان کو ادائیگی جاری رکھنے کے لیے ضروری ہیں۔’’
اسلام آباد میں مقیم سکیورٹی تجزیہ کار عامر رانا کہتے ہیں، اگرچہ چین یہ امید رکھتا تھا کہ پاکستان کے معدنیات پر اس کی اجارہ داری قائم رہے گی، لیکن میں یہ نہیں سمجھتا کہ اس تعلق کو کسی بڑی حد تک نقصان پہنچے گا۔’’زین کاظمی کا بھی مؤقف ہے کہ تجارتی دانشمندی ایک سے زیادہ شراکت داروں کے ساتھ کام کرنے کے حق میں ہے۔ان کے بقول:’’پاکستانی وسائل پر پاکستان کے علاوہ کسی ملک کو کھلی چھوٹ نہیں دی گئی اور ان ذخائر پر پاکستان کا ناقابلِ انتقال حق ہے۔’’
مقامی کمیونٹیز، سکیورٹی اور آمدنی کی تقسیم
تاہم واشنگٹن ڈی سی میں مقیم عذیر یونس کے مطابق پاکستان کے سامنے ایک طویل سفر موجود ہے تاکہ وہ سرمایہ کاروں کو تجارتی منافع دینے والی ٹھوس پیش رفت اور نتائج دکھا سکے۔کہتے ہیں، اگر پاکستانی حکومت ایسا کرنے میں ناکام رہی تو یہ تاثر مزید مضبوط ہوگا کہ پاکستان کی بدانتظامی اسے کاروبار کرنے کے لیے ایک خوفناک جگہ بنا دیتی ہے۔’’
ایک ریٹائرڈسرکاری افسرکہتے ہیں، تشدد اور عدم استحکام سے دوچار علاقوں کی اصل تبدیلی کے لیے صرف غیر ملکی سرمائے کی آمد کافی نہیں ہوگی۔اس شعبے میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے عسکری کنٹرول سے نکل کر شمولیتی ترقی کی طرف جانا ہوگا، جہاں مقامی کمیونٹیز کو اپنی زمین کے نگہبان کے طور پر بااختیار بنایا جائے، رائلٹیز شفاف انداز میں تقسیم ہوں اور بنیادی ڈھانچہ صرف کان کنی ہی نہیں بلکہ عزت و وقار کی خدمت بھی کرے۔
صرف اسی صورت میں جب معدنی دولت کو ایک قومی وراثت کے طور پر دیکھا جائے، نہ کہ ایک متنازع جنس کے طور پر، پاکستان اپنے پوشیدہ قدرتی وسائل کو اتحاد، خودمختاری اور علاقائی اثرورسوخ کی بنیاد میں تبدیل کر سکتا ہے۔’’