نیتن یاہو کے وارنٹ نکلوانے والے پراسیکیوٹر کریم خان عالمی عدالت سے نااہل قرار

بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کے اپیلٹ ججوں نے سابق فلپائنی صدر روڈریگو ڈوٹیرٹے کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمے میں چیف پراسیکیوٹر کریم خان کو ممکنہ مفادات کے ٹکراؤ (Conflict of Interest) کے باعث نااہل قرار دے دیا ہے۔

بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی ”رائٹرز“ کے مطابق، یہ فیصلہ کریم خان کے لیے ایک اور بڑا جھٹکا ہے، اس سے قبل وہ مئی میں اقوام متحدہ کی طرف سے مبینہ جنسی بدسلوکی کے الزامات کی تحقیقات کے دوران عہدے سے الگ ہو چکے ہیں۔

اب ان پر ڈوٹیرٹے کے مقدمے میں حصہ لینے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ یہ مقدمہ عدالت کا واحد فعال بڑا کیس تھا، جو پہلے ہی امریکی پابندیوں کی زد میں ہے۔

اگست میں ڈوٹیرٹے کے وکلاء نے کریم خان کی نااہلی کی درخواست دی تھی، جس میں کہا گیا کہ چونکہ کریم خان ماضی میں فلپائن ہیومن رائٹس کمیشن کے نمائندے کے طور پر ڈوٹیرٹے کو مجرم ٹھہرانے کے عمل میں شامل رہے ہیں، لہٰذا وہ اس کیس میں غیرجانبدارانہ تفتیش نہیں کر سکتے۔

کریم خان نے اس اعتراض کو مسترد کرنے کی درخواست دی تھی، مگر 2 اکتوبر کو اپیلٹ چیمبر نے دفاع کی درخواست منظور کرتے ہوئے کہا کہ کریم خان کا ماضی کا کردار ان کے غیرجانبداری پر سوال اٹھاتا ہے، اس لیے انہیں مقدمے سے الگ کر دیا گیا ہے۔

دوسری جانب آئی سی سی کے پراسیکیوٹر کے دفتر نے اس فیصلے پر تاحال کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

ڈوٹیرٹے، جو 2016 سے 2022 تک صدر رہے، مارچ میں گرفتار ہو کر ہیگ پہنچائے گئے تھے۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے ”ڈرگ وار“ کے دوران ہزاروں افراد کے ماورائے عدالت قتل کی ہدایت دی۔ ان کے وکلاء کا کہنا ہے کہ ان کی گرفتاری غیرقانونی اور ”اغوا“ کے مترادف ہے۔

اب یہ مقدمہ نائب پراسیکیوٹر مامے ندیائے نیانگ کے زیرِ نگرانی چلایا جا رہا ہے، جو خود بھی واشنگٹن کی جانب سے اسرائیل کے خلاف جنگی جرائم کی تحقیقات پر عائد پابندیوں کا سامنا کر رہے ہیں۔

گزشتہ سال نومبر میں آئی سی سی نے اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو، سابق وزیرِ دفاع یوآو گیلنٹ اور حماس رہنما ابراہیم المصری کے خلاف جنگی جرائم کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔ اور ان کے خلاف مقدمہ کریم خان نے لڑا تھا۔

اگست 2024 میں کریم خان کو وینزویلا کی تفتیش سے بھی الگ کر دیا گیا تھا کیونکہ ان کی سالی وینزویلا کے صدر نکولس مادورو کی حکومت کی قانونی نمائندہ تھیں، جو مفادات کے تصادم کے زمرے میں آتا تھا۔

اس دوران امریکی جریدے ”نیو یارکر“ نے کریم خان کے خلاف جنسی بدسلوکی کے الزامات پر ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی تھی، جس میں ان کے معاون تھامس لنچ کا ذکر بھی شامل ہے۔

رپورٹ کے مطابق کچھ افراد کا خیال ہے کہ لنچ یا ان کے قریبی کسی شخص نے میڈیا کو خفیہ معلومات لیک کیں تاکہ کریم خان کو بدنام کیا جا سکے۔

نیو یارکر کے مطابق کریم خان پر الزام لگانے والی خاتون کا کہنا تھا کہ وہ اسرائیلی رہنماؤں کے خلاف مقدمات کو سست روی سے آگے بڑھانے کے حق میں تھیں، جب کہ ماضی میں کہا جا رہا تھا کہ وہ خود ان وارنٹس کی حامی تھیں۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ کریم خان اور خاتون کے درمیان فون کال میں خاتون نے کسی بھی جنسی پیش قدمی کا ذکر نہیں کیا، بلکہ صرف یہ کہا کہ ان کے ساتھی انہیں کریم خان کی ”دیوانی“ یا ”اسرائیلی جاسوس“ سمجھتے ہیں۔

کریم خان نے کال میں کہا، “سچ سامنے آ جائے گا، تم اگر چاہو تو خود تحقیقات شروع کر سکتی ہو۔”

دوسری جانب خاتون نے نیو یارکر اور مڈل ایسٹ آئی کو بیان دیتے ہوئے کہا کہ ان کے الزامات کا اسرائیل کے مقدمے سے کوئی تعلق نہیں، اور وہ تمام تفتیشوں کی حمایت کرتی ہیں۔

برطانوی وزیرِ خارجہ ڈیوڈ کیمرون کا بھی ذکر سامنے آیا ہے، جنہوں نے مبینہ طور پر خان کو خبردار کیا تھا کہ اگر انہوں نے اسرائیلی رہنماؤں کے خلاف وارنٹس جاری کیے تو یہ ”ہائیڈروجن بم“ ثابت ہوگا۔ ذرائع کے مطابق برطانیہ نے یہاں تک دھمکی دی کہ وہ آئی سی سی سے علیحدہ ہو جائے گا۔

کریم خان کے خلاف بڑھتی ہوئی دباؤ اور الزامات کے باعث ان کی عدالت میں ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ مبصرین کے مطابق یہ تنازعہ اسرائیل کے خلاف مقدمات کو کمزور کرنے اور بین الاقوامی انصاف کے نظام پر ایک بڑا حملہ ہے۔

امریکی حکومت پہلے ہی آئی سی سی کے کئی ججوں اور پراسیکیوٹرز پر پابندیاں عائد کر چکی ہے، اور اب خدشہ ہے کہ یہ عدالت خود بھی امریکی پابندیوں کا نشانہ بن سکتی ہے۔

Similar Posts