کنونشن سینٹر اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے افغانستان اور پاکستان کے درمیان پیدا ہونے والے تنازع کے حل کے لیے کردار ادا کرنے سے متعلق سوال پر کہا کہ بالکل ہم کردار ادا کرنے کو تیار ہیں لیکن اس کے لیے زمینی راہ ہموار کرنی ہوگی، اگر ہم دونوں طرف گرمی کے ماحول میں بات کرتے ہیں تو ممکن ہے کہ وہ نتائج سامنے نہ آسکیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جنگ بندی بھی ہوگئی ہے اب زبان بندی بھی ہونی چاہیے، ایک دوسرے کے خلاف پروپیگنڈا اور سوشل میڈیا کو استعمال کرنا، بیان بازی سے بھی رک جائیں تو ایک ماحول بن جائے گا کہ ہم باہمی رابطوں کے ذریعے سے مسئلہ حل کریں۔
انہوں نے کہا کہ میں کوشش کروں گا کہ دونوں ممالک رابطے میں آئیں اور بات چیت کے ذریعے اپنی شکایات دور کریں اور مستقل دوست پڑوسی کی طرح رہنے کا عہد کریں۔
مولانا فضل الرحمان نے افغان وزیر خارجہ کے دورہ بھارت اور دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کے حوالے سے ایک سوال پر کہا کہ یہ ساری چیزیں کیوں اور کیسے پروان چڑھیں، اس کے پیچھے کیا اسباب تھے، بظاہر دونوں کے پاس دلائل بھی موجود ہیں، نظائر بھی موجود ہیں اور ہر کسی کے پاس اپنے دعوے کے لیے کچھ کہنے کے لیے مواد بھی موجود ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں بنیادی طور پر سوچنا چاہیے کہ پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے کے لیے کتنے ضروری ہیں، ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ ہندوستان جو حال ہی میں ہم پر حملہ کرچکا ہے، ہم اس وقت بھی حالت جنگ میں ہیں، بھارت ابھی دھمکیاں دے رہا ہے کیا مغربی محاذ کھولنا کیا ایک بہترین جنگی حکمت عملی ہے اور کیا ریاست کے لیے مفید راستہ ہے۔
سربراہ جمعیت علمائے اسلام نے کہا کہ ان سارے عوامل کو دیکھ کر ہمیں پاکستان کی حفاظت اور سلامتی کو اول رکھنا چاہیے اور دوسرا یہ کہ ہمیں پڑوسی ممالک کے استحکام، استقلال اور داخلی امن کو اپنے لیے ایک مفاد تصور کرنا چاہیے اور حفاظت کے لیے ہمیں حکمت عملی کے ساتھ جانا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ افغانستان میں ایک نئی حکومت ہے، تین چار سال میں وہ اتنی بالغ النظر نہیں بن جاتی کہ ہم ان سے عالمی معیار کے مطابق سفارتی، سیاسی، تجارتی توقعات رکھیں، یا وہاں کوئی منظم فوج وجود میں آگئی ہے تو ایسا نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہاں کے انٹیلیجینس کا نیٹ ورک ابتدائی مراحل میں ہے، پاکستان ہر لحاظ سے اس حوالے سے سے عالمی معیار پر پورا اترتا ہے، اپنی سیاسی، سفارتی پالیسیوں، دفاعی قوت اور انٹیلی جینس کے مضبوط نیٹ ورک کے حوالے سے پاکستان کو دنیا میں اہمیت حاصل ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ میں اپنی حکومت کو بھی یہی مشورہ دوں گا کہ ہم اس سارے معاملے کو انتہائی تحمل، بردباری، سنجیدگی اور گہرائی کے ساتھ دیکھیں اور میں یہ کوشش کروں گا کہ دونوں ممالک رابطے میں آجائیں اور بات چیت کے ذریعے ایک دوسرے کی شکایات دور کریں۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں سوچنا ہوگا کہ پاکستان ان حالات میں جب بھارت کے ساتھ سرحدی گرما گرمی چل رہی ہے اور باہمی تعلقات میں انتہائی کشیدگی ہے، ایسے ماحول میں ہم اپنے پڑوسی ملک کو انڈیا کی طرف کیوں دھکیلیں اور بھارت کو ایسے مواقع کیوں فراہم کریں۔
سربراہ جمعیت علمائے اسلام نے کہا کہ آج ہم امیرخان متقی کے دورے پر اعتراضات تو کر رہے ہیں لیکن یہ مواقع ہمیں ان کو نہیں فراہم کرنے چاہئیں اور حکمت عملی ہماری ہونی چاہیے کہ پڑوسی ملک پاکستان کے قریب تر رہیں۔