سپر ٹیکس کیس: یہاں انکم ٹیکس نہیں دیتے تو سپر ٹیکس کیسے دیں گے، جج سپریم کورٹ

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں سپر ٹیکس سے متعلق دائر درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے جسٹس حسن اظہر رضوی  نے ریمارکس دیے ہیں کہ یہاں تو انکم ٹیکس نہیں دیتے، سپر ٹیکس کیسے دیں گے، اب تو سیلاب کی وجہ سے یہ نا کہہ دیں کہ جو ٹیکس لگا ہے وہ بھی نہیں دیں گے۔

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے سپر ٹیکس سے متعلق دائر درخواستوں پر سماعت کی،  مختلف ٹیکس پیرز کے وکیل فروغ نسیم نے دلائل دیے اور مؤقف اپنایا کہ سپر ٹیکس سیکشن چھ بی (اے) کے تحت ہی لگایا جا سکتا ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل  نے استفسار کیا کہ یکم جولائی 2021 سے 30 جون 2022 تک کون سا ٹیکس ائیر ہو گا، سادہ لفظوں میں پوچھوں تو پیج نمبر ایک سے ان ورڈز لکھا ہے تو کیا پیج نمبر ایک سے پڑھیں گے؟۔

فروغ نسیم  نے مؤقف اپنایا کہ اگر یہ لکھا ہو کہ پیج نمبر ایک سے ان ورڈ تو وہ پیج نمبر دو سے پڑھا جائے گا، جسٹس محمد علی مظہر  نے استفسار کیا کہ جب چارجز سیکشن کے تحت ٹیکس لیا جا سکتا ہے تو پھر کیا مسلئہ ہے؟۔

فروغ نسیم  نے جواب دیا کہ چارجز سیکشنز اور انشورنس کمپنیوں کے حوالے سے کئی عدالتی فیصلے موجود ہیں، انشورنس کمپنی پر کون سا اور کتنا ٹیکس نافذ ہو گا اس حوالے سے بھی سیکشن موجود ہے، ٹیکس نافذ کرنے کے لیے شیڈول ضروری ہے بغیر شیڈول کے ٹیکس نہیں لگایا جا سکتا۔

جسٹس حسن اظہر رضوی  نے ریمارکس دیے کہ یہاں تو انکم ٹیکس نہیں دیتے سپر ٹیکس کیسے دیں گے، اب تو سیلاب کی وجہ سے یہ نا کہہ دیں کہ جو ٹیکس لگا ہے وہ بھی نہیں دیں گے۔

سریم کورٹ نے کیس کی مزید سماعت کل ساڑھے نو بجے تک ملتوی کردی۔

Similar Posts