دنیا بھر میں احتجاج کی ایک نئی لہر نئی شکل میں اٹھی ہے جس نے حکومتوں کے تختے اُلٹ دیے ہیں۔ یہ لہر اُن اُکتائے ہوئے نوجوانوں کی ہے جو سوشل میڈیا پر نعروں سے تنگ آکر اب سڑکوں پر آ چکے ہیں۔
نوجوانوں کے اس احتجاج کو دنیا نے جین زی (Generation-Z) انقلاب کا نام دیا ہے۔ وہ نسل جو موبائل، انٹرنیٹ اور بے خوفی کے زمانے میں پلی بڑھی، اب دنیا کے پرانے سیاسی نظام، کرپٹ خاندانوں اور نااہل حکمرانوں کے خلاف علمِ بغاوت بلند کر چکی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ تمام احتجاج ڈسکارڈ اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے کنٹرول کیے جا رہے ہیں۔
اس کی حالیہ مثال افریقی ملک مدغاسکر ہے، جہاں تین ہفتوں سے جاری نوجوانوں کی احتجاجی تحریک نے آخرکار صدر اینڈری راجویلینا کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔
فوج کے ایک اعلیٰ یونٹ کیپ سیٹ نے حکومت سے علیحدگی اختیار کرکے نوجوان مظاہرین کا ساتھ دیا، جس کے بعد صدر راجویلینا ایک فرانسیسی فوجی طیارے کے ذریعے ملک چھوڑ کر فرار ہوگئے۔

مدغاسکر میں کیا ہوا؟
افریقہ کے جنوب مشرقی ساحل پر واقع ایک غریب جزیرہ نما ملک مدغاسکر طویل عرصے سے غربت، بدعنوانی اور ناکام طرزِ حکمرانی کا شکار ہے۔ ملک کی 75 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ یہاں بجلی، پانی، صحت اور تعلیم جیسی بنیادی سہولتیں عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہیں۔
گزشتہ ماہ دارالحکومت انتاناناریوو میں بجلی کی بندش اور پانی کی قلت کے خلاف مظاہرے شروع ہوئے، مگر جلد ہی ان کا رخ سیاسی بدعنوانی، اقربا پروری اور نااہل حکمرانوں کے خلاف بغاوت میں اس وقت بدل گیا جب 21 سالہ طالبہ اینجی رکوٹو نے ہزاروں کے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ’راجویلینا کو فوراً استعفا دینا ہوگا‘۔

بظاہر پانی اور بجلی کے مسئلے سے شروع ہونے والا احتجاج ملک کو پرانے کرپٹ سیاسی خاندانوں سے آزادی کی تحریک میں بدل گیا۔
مدغاسکر میں صدر راجویلینا خود 2009 میں ایک فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدار میں آئے تھے۔ یعنی وہ بھی اسی نظام کا حصہ تھے جس کے خلاف آج نوجوان بغاوت کر رہے ہیں۔ 15 سال بعد وہی تاریخ پلٹ کر ان کے سامنے آ گئی۔ مگر اس بار بغاوت میں فوج کے ساتھ ’جین زی‘ تھی۔
اور یہ صرف مدغاسکر کا منظر نہیں۔ گزشتہ ایک سال کے دوران دنیا کے کئی ممالک میں نوجوان نسل نے اپنے ہی حکمرانوں کو للکار کر حکومتوں کے تختے پلٹ دیے ہیں۔
نیپال: کرپشن اور ”نیپو کڈز“ کے خلاف انقلاب
جنوبی ایشیا کا ملک نیپال ستمبر کے اوائل میں بڑے پیمانے پر نوجوانوں کے حکومت مخالف احتجاج کی زد میں آیا۔ جب حکومت نے ملک میں 26 سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پابندی لگائی۔ مگر اصل غصہ کرپشن اور سیاسی خاندانوں کے رعب و دبدبے پر تھا۔

اس کے نتیجے میں وزیرِاعظم شرما اولی کو عہدہ چھوڑنا پڑا، جب کہ دارالحکومت کھٹمنڈو میں پارلیمنٹ کی عمارت کو آگ لگا دی گئی۔ ان احتجاجوں میں سب سے زیادہ نعرے ”نیپو کڈز“ (اقربا پروری) کے خلاف لگے۔ یعنی نوجوان امیر سیاستدانوں کے بچوں کی سوشل میڈیا پر عیاشیوں کی نمائش سے بیزار تھے، کیونکہ ایک طرف اشرافیہ کی عیاشی تھی تو دوسری جانب عوام غربت میں دھنستے جارہے تھے۔
بنگلہ دیش: شیخ حسینہ کی حکومت کا خاتمہ
بنگلہ دیش کی تاریخ نے جولائی 2024 میں ایک ایسا موڑ لیا جس نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا۔ برسوں سے اقتدار پر قابض شیخ حسینہ واجد، جنہیں کبھی “آئرن لیڈی آف ڈھاکہ” کہا جاتا تھا، آخرکار اپنے ہی نوجوانوں کے ہاتھوں اقتدار سے محروم ہو گئیں۔
سارا معاملہ سرکاری ملازمتوں میں مخصوص کوٹہ سسٹم سے شروع ہوا۔ عدالت کے ایک فیصلے نے 1971 میں پاکستان سے علیحدگی کی لڑائی میں حصہ لینے والوں کی اولادوں کے لیے دوبارہ 30 فیصد نوکریاں مخصوص کر دیں۔ ابتدا میں یہ معاملہ چند یونیورسٹیوں کے طلبہ تک محدود تھا، مگر جب وزیرِاعظم حسینہ واجد نے طلبہ کے جائز مطالبات سننے سے انکار کیا اور انہیں ”رضاکار“ یعنی پاکستان کے حامی غدار کہا، تو پورا ملک بھڑک اٹھا۔

ڈھاکہ یونیورسٹی، چٹاگانگ، رنگپور، راج شاہی اور کھلنا کے کیمپس سوشل میڈیا پر احتجاج کے اڈے بن گئے۔ بنگلہ دیش چھوٹی ویڈیوز، ہیش ٹیگز اور لائیو اسٹریمز کے ذریعے دہکنے لگا۔ حکومت نے انٹرنیٹ بند کیا، یونیورسٹیاں بند کیں، اور پولیس و حکومتی اہلکاروں نے طلبہ پر حملے کیے۔ مگر ہر گولی، ہر آنسو گیس کے شیل نے آگ بجھانے کے بجائے اسے اور بھڑکایا۔
17 جولائی کو ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں پولیس کو نہتے طلبہ پر سیدھی فائرنگ کرتے دیکھا گیا۔ اگلے ہی دن ڈھاکہ یونیورسٹی کے طالب علم شیخ یامین کو فوجی گاڑی سے سڑک پر پھینک دیا گیا، وہ زخموں سے تڑپتا رہا، کوئی اسے بچانے نہ آیا۔ یہی لمحہ بنگلہ دیش کے نوجوانوں کے دلوں میں انقلاب کی چنگاری بن گیا۔

21 جولائی کو سپریم کورٹ نے کوٹہ نظام محدود کر دیا، لیکن اس وقت تک بات نوکریوں سے آگے بڑھ چکی تھی۔ یہ تحریک اب انصاف، آزادی اور شیخ حسینہ کے 15 سالہ آمرانہ اقتدار کے خلاف عوامی بغاوت بن چکی تھی۔
جولائی کے آخر میں جب احتجاج شدت اختیار کر گیا تو فوج کو سڑکوں پر اتار دیا گیا۔ مگر حیرت انگیز طور پر، کئی ریٹائرڈ اور حاضڑ سروس فوجی افسران نے طلبہ کا ساتھ دے دیا۔ 4 اگست کو ڈھاکہ کے مرکزی چوک میں لاکھوں لوگ جمع ہوئے۔ پولیس نے گولی چلائی، لاشیں گریں، مگر عوام پیچھے نہیں ہٹے۔ اسی رات بنگلہ دیش کا سیاسی نقشہ بدل گیا۔ حسینہ واجد فوجی ہیلی کاپٹر کے ذریعے ملک چھوڑ کر بھارت کی طرف فرار ہو گئیں۔

اس کے بعد جو منظر سامنے آیا، وہ بنگلہ دیش کے سیاسی استعارے کی مکمل تبدیلی تھی۔ ڈھاکہ میں حسینہ کے والد شیخ مجیب الرحمٰن کے مجسمے زمین بوس کر دیے گئے۔ عوامی لیگ کے دفاتر نذرِ آتش ہو گئے اور ملک کے نوجوان جیت کا جشن مناتے نظر آئے۔
یوں بنگلہ دیش میں ”جین زی“ نے جدید دور کا ایک نیا باب رقم کیا۔
پیرو: پنشن اصلاحات اور غریبوں کی آواز
جنوبی امریکا کے ملک پیرو میں حکومت نے ایک ایسا قانون منظور کیا جو نوجوانوں کو نجی پنشن فنڈ میں جبری ادائیگی پر مجبور کرتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ستمبر میں ہزاروں نوجوان اور مزدور سڑکوں پر نکل آئے۔
’ہم خوف سے آزاد زندگی چاہتے ہیں‘ یہ بینر ان مظاہروں کا نشان بن گیا۔

اس احتجاج کے دوران صدر دینا بولوارٹے کی مقبولیت دو فیصد سے بھی کم رہ گئی۔ بالآخر کانگریس نے انہیں عہدے سے ہٹا دیا۔
فلپائن: جعلی فلڈ ریلیف اور اربوں کی لوٹ مار
ستمبر کے آغاز میں ہی جنوب مشرقی ایشیا میں فلپائن کے نوجوان اس وقت سڑکوں پر آئے جب انہیں معلوم ہوا کہ حکومت نے سیلاب زدگان کی امداد کے نام پر اربوں ڈالر ہڑپ لیے۔ احتجاج کرنے والے ہزاروں نوجوان گرفتار ہوئے۔
ان کا پیغام واضح تھا: ’ہم ٹیکس دیتے ہیں، مگر بدعنوانی ختم نہیں ہوتی‘۔

اس دوران منیلا میں صدارتی محل کے قریب نقاب پوش مظاہرین اور پولیس میں جھڑپ ہوئی جس میں دو افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔
تاہم، فلپائن میں کرپشن مخالف تحریک مارکوس حکومت گرانے میں ناکام رہی۔ بعض سیاست دانوں کے گھروں پر حملوں اور تشدد کی کوششوں کے باوجود عوام اور فوج نے اس منصوبے کا ساتھ نہیں دیا۔
ایک گروہ نے تین مرحلوں میں حکومت مخالف احتجاج کی سازش رچی تھی، جس کا مقصد 30 نومبر کے بڑے مظاہرے کو ہائی جیک کرکے مارکوس کو مستعفی کرانا تھا۔ تاہم عوامی حمایت نہ ملنے پر منصوبہ ناکام ہوگیا۔

مظاہرین حکومت کے کرپٹ اہلکاروں، سیاست دانوں اور ٹھیکیداروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں، لیکن مختلف گروہوں کے اپنے سیاسی ایجنڈے ہیں۔ کچھ چاہتے ہیں کہ مارکوس مستعفی ہوکر نائب صدر سارا ڈوٹرٹے کو اقتدار دے دیں، جبکہ بعض اسے مسترد کرتے ہیں۔
زیادہ تر عوام کا مطالبہ ہے کہ مارکوس بدعنوان عناصر، حتیٰ کہ اپنے رشتہ داروں کے خلاف بھی سخت کارروائی کریں۔ فلپائن کے نوجوان کرپشن سے تنگ ہیں لیکن وہ پرامن تبدیلی پر یقین رکھتے ہیں، یہی چیز انہیں خطے کے دیگر ممالک سے مختلف بناتی ہے۔
مراکش: ورلڈ کپ کے نام پر عوام کو دھوکہ
افریقہ کے شمالی ملک مراکش میں ’Gen Z 212‘ کے نام سے اکتوبر کے آغاز میں ایک تحریک اٹھی۔ نوجوانوں نے سوال اٹھایا کہ حکومت 2030 کے ورلڈ کپ کی تیاریوں پر اربوں ڈالر لگا رہی ہے مگر عوام کے پاس اسپتال اور اسکول نہیں۔
’اسٹیڈیم بنا رہے ہو، مگر اسپتال کہاں ہیں؟‘ یہ نعرہ سڑکوں پر گونجتا رہا۔ اس دوران پولیس فائرنگ سے تین نوجوان جاں بحق ہوئے، سیکڑوں گرفتار ہوئے، مگر احتجاج نہیں رکا۔

وزیراعظم عزیز اخنوش نے کہا کہ حکومت ’مکالمے اور بات چیت کے لیے تیار ہے‘۔ تاہم 14 اکتوبر کی رات ”جین زی“ احتجاج کے منتظمین نے ڈسکارڈ اور اپنے سرکاری سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اعلان کیا کہ ایک بڑا احتجاج 18 اکتوبر کو منعقد کیا جائے گا۔
جین زی کیوں اٹھ رہی ہے ؟
یہ نسل انٹرنیٹ اور انفارمیشن کی دنیا میں پلی بڑھی ہے۔ اب یہ نہ تو روایتی سیاستدانوں کی تقریروں سے متاثر ہوتی ہے اور نہ ہی پرانی نسل کے خوف سے دبتی ہے۔ یہ ہر چیز کو فیکٹ چیک کرتی ہے، سوال پوچھتی ہے، اور جب جواب نہیں ملتا تو احتجاج کرتی ہے۔

ان نوجوانوں کا سب سے بڑا مسئلہ عدم مساوات ہے۔ یعنی امیر مزید امیر ہو رہے ہیں، اور عام آدمی بنیادی ضرورتوں سے محروم ہے۔ ان کے ملکوں میں حکومتیں چند خاندانوں کے قبضے میں ہیں، جو دہائیوں سے اقتدار کو اپنی وراثت سمجھتی ہیں۔
نیپال کے اولی خاندان ہوں، پیرو کے بولوارٹے حکمران، یا مدغاسکر کے راجویلینا یا بنگلہ دیش کی حسینہ واجد، سب میں ایک بات مشترک ہے: اقتدار چند ہاتھوں میں قید ہے۔ تعلیم، صحت، روزگار، بجلی اور پانی جیسے مسائل پسِ پشت ڈال دیے گئے ہیں، مگر حکمران طبقہ محلات، گاڑیوں اور بیرونی دوروں پر ٹیکس دہندگان کا پیسہ اڑا رہا ہے۔
دنیا بھر میں ”Gen-Z“ کے احتجاج اب محض وقتی مظاہرے نہیں رہے، یہ ایک نئی عالمی سیاسی بیداری کی علامت بن چکے ہیں۔ یہ نسل اب صرف تبدیلی کی بات نہیں کرتی، بلکہ اسے عملی طور پر نافذ کرنے کے لیے سڑکوں پر نکل رہی ہے۔
مدغاسکر سے لے کر نیپال، مراکش، پیرو اور فلپائن سے بنگلہ دیش تک، نوجوان نسل کا پیغام ایک ہے:
’ہم وہ نسل ہیں جو خاموش نہیں رہے گی۔ ہم وہ ہیں جو سچ بولیں گے، سوال کریں گے اور اگر ضرورت پڑی — نظام بدل دیں گے!‘