پی ٹی آئی کے وزیر اعظم نے تحریک عدم اعتماد کے اجلاس کو اپنے ڈپٹی اسپیکر کی طرف سے غیر قانونی قرار دے کر منسوخ کرنے کی تگ و دو کے بعد اپنے صدر مملکت عارف علوی کو قومی اسمبلی توڑنے کا حکم دیا تھا جس کی صدر علوی نے فوری تعمیل کی تھی مگر سپریم کورٹ نے صدر علوی کا اقدام غیر قانونی قرار دے کر قومی اسمبلی نہ صرف بحال کر دی تھی بلکہ تحریک عدم اعتماد کے لیے بلایا گیا اجلاس جاری رکھ کر فیصلہ کرنے کا حکم دیا تھا جس کے نتیجے میں تحریک عدم اعتماد منظور ہوئی اور نئے وزیر اعظم منتخب ہو کر حکومت بنائی تھی اور شاید خیرسگالی کے جذبے کے تحت پی ٹی آئی رہنماؤں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی تھی جس کے بعد سابق حکومت کے وزیر اعظم نے سائفر کی بنیاد پر امریکا پر اپنی حکومت ختم کرانے کا الزام لگا کر پاکستان و امریکا کے تعلقات خراب کرنے کی باقاعدہ مہم شروع کر دی تھی اور نئی حکومت خاموش رہی تھی کیونکہ چار سال سے اقتدار سے محروم حکومتی پارٹیاں مزید مسائل میں الجھنا نہیں چاہتی تھیں۔
اقتدار سے محرومی کے بعد سابق وزیر اعظم کے حکم پر ان کے دور کے وزیر خزانہ شوکت ترین نے پنجاب و کے پی کے، پی ٹی آئی کے وزرائے خزانہ کو کہا تھا کہ وہ اپنی حکومتوں کی طرف سے آئی ایم ایف کو لیٹر بھیجیں کہ وہ قرضوں کے لیے نئی حکومت کی درخواست قبول نہ کرے کیونکہ پی ٹی آئی کی نئی حکومت قرضوں کی ادائیگی کی ذمے دار نہیں ہوگی۔ اس وقت ملک معاشی تباہی کا شکار اور دیوالیہ ہونے کے قریب تھا اور سابق وزیر اعظم بھی یہی چاہتے تھے اور ان کی بھرپور کوشش تھی کہ پی ڈی ایم حکومت جلد ناکام ہو جائے اور الیکشن کے ذریعے وہ قومی اسمبلی میں پنجاب و کے پی حکومتوں کو استعمال کرکے دوبارہ وزیر اعظم بن سکیں۔
پی ڈی ایم حکومت معاشی ابتر صورتحال کے باعث دباؤ میں آ کر قبل ازوقت الیکشن کا سوچ رہی تھی کہ سابق حکومت کے برطرف وزیر اعظم نے مزید دباؤ بڑھانے کے لیے ملک میں جلسوں کا نیا ریکارڈ قائم کر دیا تھا کیونکہ وہ دوبارہ وزیر اعظم بن کر مرضی کا آرمی چیف لانا چاہتے تھے مگر حکومت دھمکیوں میں نہیں آئی اور اس نے اپنی 2023 تک کی بقایا مدت پوری کرنے کا فیصلہ کیا اور وزیر اعظم شہباز شریف نے آئی ایم ایف کو نیا قرض دینے پر راضی کیا اور دوست ممالک کی وجہ سے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا تھا جو سابق وزیر اعظم کو منظور نہ تھا۔ برطرف وزیر اعظم نے حصول اقتدار کے لیے مقتدر قوتوں کی حمایت دوبارہ حاصل کرنا چاہی مگر مقتدر قوتوں نے سیاست میں مداخلت سے انکار کیا اور چیئرمین پی ٹی آئی نے نئے آرمی چیف کی تقرری روکنے کی کوشش کی مگر لانگ مارچ کرکے بھی ناکام رہے۔
انھوں نے اپنی برطرفی کا ذمے دار مقتدر قوتوں سمیت مختلف قوتوں کو قرار دیا مگر بعد کے اقدامات نے پی ٹی آئی کو بری طرح مایوس کیا اور اس کے چیئرمین نے ہار نہ مانی اور وہ حکومت مخالف مہم میں ناکامی کے بعد ریاست مخالف مہم پر اتر آئے جس میں پی ٹی آئی کے مفرور رہنما اور ملک سے بھاگے ہوئے بعض اینکر بھی شامل ہو گئے اور سب نے مل کر ریاست کے خلاف مہم شروع کی جس کے نتیجے میں دو سال قبل سانحہ 9 مئی بھی رونما کرایا گیا۔ ملک کی تاریخ میں 9 مئی بدترین سانحہ تھا جس پر بانی پی ٹی آئی اور متعدد رہنما گرفتار ہوئے مگر بانی نے قید میں رہ کر صرف اپنی رہائی کی کوشش کو ترجیح دے رکھی ہے اور آئے دن احتجاج معمول بنا رکھا ہے۔
کبھی الزام تراشی کبھی مذاکرات کی کوشش مگر کہیں کامیابی نہ ملی۔ پی ٹی آئی حکومت میں نیشنل ایکشن پلان پر عمل نہیں ہونے دیا گیا تھا بلکہ دہشت گردوں کو واپس لا کر ان کی سرپرستی کی گئی۔ پی ٹی آئی کی کے پی حکومت آپریشن میں رکاوٹ ڈالتی رہی اور مزید مخالفت کے لیے نیا وزیر اعلیٰ بنوا کر ریاست کی مخالفت کی انتہا پر آگئے ۔ اب وزیر اعظم بھی کہہ رہے ہیں کہ بہت ہو گیا اگر ان کی حکومت شروع میں ہی سخت پالیسی اپنا لیتی تو ریاست دشمن آپے سے باہر نہ ہوتے مگر انھیں نہ جانے کیوں آزادی دی گئی؟