امت مسلمہ کا حصہ ہوتے ہوئے ہر محب وطن پاکستانی کی طرح میرے لیے کفار، یہود و نصاریٰ اور مشرکین کے ہاتھوں مسلمانوں کی شہادتیں ناقابل برداشت اور عالم کفر کی سازشوں کے نتیجے میں مسلمان کے ہاتھوں مسلمان خصوصاً پاکستانی افواج کے شیردل جوانوں اور افسروں کی شہادتیں اذیت ناک ہیں، میرے لیے یہ ممکن نہیں کہ میں لکھ سکوں کہ کس نے کس کے کتنے مارے کون بھاگا اور کون ڈٹ گیا، کون جیتا اور کون ہارا؟ کیوں کہ میرے نزدیک یہ ایک ایسی المناک لڑائی ہے جس میں جیتنے کا درد ہار کے درد سے زیادہ ہوگا۔
اس کو سمجھانے کے لیے ماضی کے دریچوں میں جھانکنے اور اپنے خوابوں پر بات کرنے کوشش کروں گا تو شاید اپنا درد سمجھا سکوں۔ جہاد افغانستان میں روس کے خلاف بنفس نفیس لڑنے، ہجرت مدینہ کی یاد تازہ کرنے والے لاکھوں افغان مہاجرین کی ہجرت اور بحیثیت پاکستانی انصار مدینہ کی سنت ادا کرنے کے وہ مسحور کن لمحات، ہمارے غریب خانہ پر مولوی یونس خالص (بت شکن ثانی) شیخ القرآن والحدیث مولوی محمد نبی محمدیؒ، مجاہد اعظم جلال الدین حقانی،پروفیسر مجددی، برہان الدین ربانی اور جہاد افغانستان کے دوسرے سرخیل قائدین، علماء کرام اکابرین امت کی بار بار آمد اور میرے مرشد و مربی باباجان شیخ المفسرین و المحدثین حضرت مولانا حمداللہ جان ڈاگئی باباجیؒ کے ساتھ ان کی جرات و عزم سے بھرپور مجالس، مدل گفتگو کرنے والے گل بدین حکمت یار جیسے مجاہد کے ساتھ منصورہ، پشاور اور محمد علی درانی کے گھر ملاقاتیں۔ اسلامیہ کالج پشاور کے دوستوں کے ہمراہ کئی بار جہاد افغانستان میں شرکت اور مجاہدین کے عزم استقلال سے بھاگتے ہوئے روسی فوج کا انخلا ایسی خوشگوار اور ایمان افروز یادیں ہیں جس کا سوچ کر روح مسرور اور دل و دماغ روشن ہوجاتے ہیں۔
کیونکہ یہ جنگ صرف مجاہدین افغانستان نے تقریباً تمام اسلامی ممالک نے امت مسلمہ کی جنگ سمجھ کر ریاست پاکستان کی راہنمائی میں لڑی اور اتحاد امت کی برکت سے جہاد افغانستان نے بدر و حنین کی یاد تازہ کروا دی تھی۔ ڈاگئی باباجیؒ کے ہزاروں شاگرد، روحانی اولاد اور میرے روحانی بھائی تمغہ شہادت اپنے سینوں پر سجا کر اللہ رب العزت کے ہاں سرخرو ہو چکے ہیں۔ جہاد افغانستان کے دوران ریاست پاکستان، پاکستانی قوم نے لاکھوں مہاجرین کو دل و جان سے قبول کرکے ان کی ہر ممکن مدد کے ذریعے عملی طور پر اس مقدس جہاد میں حصہ لیا۔ اس میں کوئی شک نہیں مجاہدین نے صف اول سے لے کر صف آخر اور انصار پاکستان نے کئی دہائیوں تک وہ کردار ادا کیاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں لڑی گئی غزوات اور مواخات مدینہ کی یاد تازہ ہوگئی۔
میرے باباجانؒ سمیت صف اول کے پاکستانی علماء کرام نے افغانستان پر سویت یونین کی فوج کشی کے پہلے دن سے لے کر اپنی زندگی کی آخری ساعت تک اتحاد امت کی خاطر افغان جہاد میں مجاہدین کی کامیابی کے ثمرات سمیٹنے کے لیے اپنی توانائیاں وقف کر رکھی تھی۔ اس آرزو اور تمنا کے ساتھ کہ افغانستان سے سرخ انقلاب کے علمبردار روس کے نکلنے کے بعد پاکستان اور افغانستان اتحاد امت کے دوسرے مرحلے میں امت مسلمہ کی نشاط ثانیہ کی قیادت و سیادت کے لیے تیار ہوچکے تھے مگر عالم کفر امت مسلمہ کی وحدت کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
امریکی استعمار مجاہدین امت مسلمہ کے ہاتھوں روس کی بربادی پر تو خوش تھا مگر روس کی شکست و ریخت کے بعد وہ امت مسلمہ کی وحدت و اتحاد کو روس سے بڑا خطرہ سمجھنے لگا۔ اور روس کے انخلا سے پہلے روس سمیت تمام عالمی طاقتیں بشمول امریکا سمجھ چکے تھے کہ شکست روس اور فتح امت محمدی کے نام ہوچکی ہے۔ اس لیے روسی انخلا سے پہلے امریکی سازشوں کا جال بننا شروع ہو چکا تھا اور امریکی استعمار نے اپنے زرخرید غلاموں اور امت مسلمہ کے غداروں کے ذریعہ اس فتح عظیم کے ثمرات کو ضایع کرنے کے لیے ایک جامع منصوبہ بندی کی تیاری کی تھی جس کی تباہ کاریاں جنرل محمد ضیاء الحق کے طیارے کو نشانہ بنانے سے شروع ہوئی تو روسی انخلا کے فوراً بعد جہاد افغانستان میں کردار ادا کرنے والی تمام پارٹیوں کے سربراہان کا ایک اجلاس پشاور گورنر ہاؤس میں بلایا گیا جس میں اقتدار کی بندر بانٹ کا ایسامجرمانہ معاہدہ کروایا گیا کہ پوری امت مسلمہ پر سکتہ طاری ہوگیا۔
کیونکہ اس معاہدے کی وجہ سے فتح کے ثمرات سمیٹنے اور ترقی کا سفر شروع کرنے کی بجائے افغانستان میں خطرناک خانہ جنگی شروع ہوگئی، جہاد افغانستان کے اصل ہیروز اور مجاہدین بدظن ہو کر کنارہ کش ہوگئے۔ پھر ملا محمدعمر مجاہدؒ خانہ جنگی ختم کرنے اور امن کے قیام کے لیے ہاتھوں میں قرآن پاک اور کلمہ طیبہ سے مزیئن سفید پرچم لیے 50 کے لگ بھگ مدارس کے طلبا کا امن جرگہ لے کر چل نکلے تو خانہ جنگی سے تنگ افغان عوام ساتھ ملتے گئے ،چند دنوں میں امن جرگہ ہزاروں اور پھر لاکھوں کے امن لشکر میں تبدیل ہوگیا۔
ملا محمد عمر کی قیادت میں طالبان کا امن لشکر جب قندھار پہنچا تو مجاہدین کے محسنوں اور افغان عوام کے اصرار پر امارات اسلامیہ کے قیام کا اعلان کیا گیا اور چند مہینے میں 95% افغانستان پر کلمہ طیبہ سے مزیئن پرچم لہرانے لگا تو پوری عالم اسلام میں جشن کا سماں مگر عالم کفر سکتے میں تھا۔ افغانستان کے محسن ریاست پاکستان کو اپنی قربانیوں کے طفیل تاریخ میں پہلی بار افغانستان کی سرزمین پر پاکستان دوست ریاست مل گئی تو شکرانے کے نوافل ادا کیے گئے۔ میں خود چھٹی لے کر اپنے مرشد و مربی باباجانؒ کو مبارک باد دینے کے لیے کراچی سے ڈاگئی پہنچا تو باباجانؒ کو جتنا خوش اور مسرور پایا اس کا احاطہ الفاظ میں ممکن نہیں۔ امارات اسلامیہ افغانستان کی طرف سے میرے باباجانؒ، شیخ الحدیث مولانا حسن جان شہیدؒ، ڈاکٹر شیر علی شاہؒ اور مفتی شامزئیؒ کو افغانستان کی اعزازی شہریت اور پاسپورٹ دیے گئے۔
باباجانؒ اور ڈاکٹر شیر علی شاہؒ نے امارات اسلامیہ کے ذمے داران اور اکابرین کے وفد کے ہمراہ حج کے موقع پر سعودی عرب سمیت دنیا بھر کے مسلمان ممالک کے ذمے داران کو امارات اسلامیہ افغانستان کے بارے تفصیلات اور ملا عمر مجاہدؒ کے پیغامات پہنچائے۔ حج سے واپسی کے بعد امارات اسلامیہ افغانستان کے امیر المومنین مولانا محمد عمر مجاہدؒ کی تجویز پر شوریٰ نے باباجانؒ کے پاس ایک وفد اور جرگہ اس مقصد سے بھیجا کہ جامعہ فاروقیہ کابل کے ہزاروں طلباء کو تفسیر قرآن اور تفسیر بخاری پڑھانے کی ذمے داری قبول کرلیںاس وفد میں امارات اسلامیہ افغانستان کے وزیر تعلیم و مذہبی امور اور موجودہ وزیر خارجہ ملا امیر متقی صاحب سمیت کئی ذمے داران، سفارت کار، پاکستان اور افغانستان کے علماء کرام موجود تھے۔ باباجانؒ نے اپنی طرف سے وفد میں موجود شیخ القرآن والحدیث مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہ صاحبؒ کا نام پیش کیا مگر ڈاکٹر صاحب سمیت وفد کے ارکان کے اصرار پر باباجان ؒ نے ذمے داری قبول کی تو ڈیڑھ سال تک ریڈیو شریعت سے باباجانؒ کا تفسیر قرآن اور تفسیر بخاری براہ راست نشر ہوتا رہا۔ ڈیوٹی پر مامور افغان مجاہدین اور امارت اسلامیہ کے ذمے داران اور اہلکار مخابرے (وائیر لیس) کی مخصوص فریکوئنسی پر سنتے تھے۔
کابل میں قیام کے دوران مولانا امیر متقی ان کے میزبان تھے۔ دونوں کے روحانی تعلق کی گہرائی اور نوعیت سمجھنے کے لیے ایک واقعہ کافی ہے۔ اسی دوران ملا امیر متقی صاحب کے ہاں بیٹے پیدا ہوا اس دن ڈاگئی باباجیؒ ان کے گھر گئے تو مولانا امیر متقی صاحب کی والدہ محترمہ نے پردے کے پیچھے سے والد محترم کو خوشخبری ان الفاظ میں سنائی “اللہ رب العزت نے متقی کو بیٹے کی نعمت سے نوازا ہے آپ اذان بھی دے دیں اور میں نے ان کا ایک نام بڑی عقیدت سے پسند کیا ہے آپ وہ نام بھی ان کو دے دیں ، باباجانؒ نے پوچھا کونسا نام پسند کیا ہے؟ تو متقی صاحب کی والدہ نے جواب دیا کہ آپ کا نام مبارک “حمداللہ جان” مجھے پسند ہے۔
اذان کے بعد والد صاحب نے ان کا نام حمداللہ جان متقی رکھ کر سب کو مبارک باد دی۔ اب ذرا میری اس اذیت کا اندازہ لگائیں جب میرے مرشد و مربی باباجانؒ سے عقیدت رکھنے والا میرا روحانی بھائی مولانا امیر متقی میرے ملک پاکستان کے ازلی دشمن ملک میں بیٹھ کر اپنے محسن و مربی ڈاگئی باباجیؒ کے ملک بلکہ امارات اسلامیہ کے محسن ملک پاکستان کے خلاف پریس کانفرنس کرے گا تو میرے اور میرے جیسے ہزاروں پاکستانیوں کا دل خون کے آنسو نہیں روئے گا؟
میری ناقص رائے کے مطابق اگر ہوش کے ناخن نہیں لیے گئے تو موجودہ عالمی اور امت مسلمہ کے حالات کے تناظر میں اس جنگ میں جیت ہار سے زیادہ اذیت ناک ہوگی۔ (جاری ہے)