غم دیا ہے تو رہے اس کا تسلسل قائم
میری غربت میں کسی شے کی تو بہتات رہے
اور یہ دعا قبول ہوگئی ہے آپ کسی کو آدمی سمجھیں گے اور وہ دانشور نکلے گا۔ کہتے ہیں کسی نے ایک بچھو سے پوچھا تم میں سردار کون ہے۔ تو اس نے کہا جس کی دُم پر ہاتھ رکھوگے وہی سردار نکلے گا اور جب کسی جگہ دانا دانشوروں کی بہتات ہوجائے تو وہاں ہر چیز کو صرف ایک پہلو سے دیکھا جاتا ہے دوسرے پہلو کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔جیسے اس دانشور نے کہا ہے کہ خواتین،یعنی جو خواتین اپنا زیادہ وقت شاپنگ میں گزارتی ہیں ان کو ٹینشن یا اینگزائٹی کا عارضہ لاحق نہیں ہوتا۔اس نے خواتین کی ٹینشن دور کرنے کا نسخہ کیمیا تو بتادیا لیکن یہ نہیں بتایا کہ خواتین کی ٹینشن کیوں ان سے دور بھاگ جاتی ہے؟ کیونکہ اس دنیا کا ایک ناقابل تنسیخ اور مستقل قانون یہ بھی ہے کہ یہاں کوئی چیز فنا نہیں ہوتی بس جگہ یا شکل بدل لیتی ہے۔ہم دیکھتے ہیں کہ انسان ،حیوان، چرندے، پرندے، خزندے، درندے، گزندے بلکہ نباتات بھی ایک چھوٹے سے بیج یا جرثومے کی شکل میں پیدا ہوتے ہیں اور پھر وہ زمین کی خوراک کھا کر بڑے ہوتے جاتے ہیں اور پھر ایک دن وہ مرکر زمین کی خوراک بن جاتے ہیں ’’پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا‘‘۔پس ثابت ہوا کہ کوئی چیز’’فنا‘‘ نہیں ہوتی جگہ اور شکل بدل لیتی ہے۔ہند والوں کا بھی یہ کہنا ہے کہ
آتما نام ہے جس کا کبھی مرتی ہی نہیں
یہی کرتی ہے کہ صرف اپنا مکان چھوڑتی ہے
چنانچہ جن خواتین کی ٹینشن شاپنگ سے دور ہوتی ہے وہ دور نہیں ہوتی بلکہ جا کر کسی بابو ،کسی افسر، کسی دکاندار یعنی کسی بھی خدامارے شوہر کو لاحق ہوجاتی ہے یعنی جگہ یا سر بدل لیتی ہے۔ایک شخص کے کسی دوست کو مرض لاحق ہوگیا اور وہ بے تحاشا بولنے لگا، بولتا رہا ، بلکہ اپنا کلام بھی سناتا رہا، پوٹا اچھی طرح خالی کرکے بعد میں بولا کمال ہوگیا ہے میں جب آیا تو سر میں شدید درد تھا آپ کی باتوں سے میرا سردرد چلا گیا۔
دوسرے نے کہا چلا نہیں گیا ہے بلکہ تیرے سر سے نکل کر میرے سر میں آگیا ہے۔مطلب یہ کہ اس دنیا میں’’فنا‘‘ نام کی کوئی چیز نہیں ہے مادہ ہو یا دانش۔صرف جگہ بدل لیتی ہے۔اب اس دولت کو لے لیجیے جتنی اشرافیہ کے پاس بڑھتی جاتی ہے عوامیہ کے پاس کم ہوتی جاتی ہے جتنا ان کا دسترخوان پھیلتا جاتا ہے پچاسی فیصد خداماروں کا سمٹتا جاتا ہے، جتنے جتنے ان کے کھاتے میںصفر بڑھتے چلے جا رہے ہیں، یہ صفر کہیں آسمان سے نہیں آتے بلکہ ان صفروں کے جنگل سے آتے ہیں جو خود بھی ایک بڑا صفر ہے۔
بادشاہ چاہے پرانے زمانے کے تھے یا موجود جمہوری شہنشاہ ہوں ان کے پاس یہ زر و جواہر کے خزانے نہ کسی غیب سے آتے تھے نہ ان کے اجداد نے ’’کانیں‘‘ کھود کر نکالے تھے، نہ وہ ’’کان کن‘‘ تھے، نہ کسی دم تعویز سے بناتے تھے، ان ہی کالانعاموں سے خون پسینہ کھینچ کر بناتے تھے کیونکہ کوئی بھی چیز نہ تو پیدا ہوتی ہے نہ فنا ہوتی ہے۔یہ ہوا جس میں ہم سانس لیتے ہیں اسی ہوا میں شاہ جہان، اکبر، تیمور اور چنگیز و ہلاکو نے بھی سانس لی ہوگی کیونکہ ہوا بھی فنا نہیں ہوتی صرف جگہ اور شکل بدل لیتی ہے، یہی سلسلہ پانی، مٹی اور باقی ساری چیزوں کا بھی ہے۔
میں اکثر بتاتا رہا ہوں کہ پانی کیا ہے سمندر سے بھاپ اٹھتی ہے، بادل بنتی ہے، بادل سے بارش برستی ہے پھر پانی کچھ ندیوں نالوں میں بہہ کر سمندر میں پہنچتا ہے۔کچھ زمین میںجذب ہوتا ہے کچھ برق بن جاتا ہے کچھ مخلوقات کے اجسام میں ڈھل جاتا ہے اور وہ وجود مرکر مٹی ہوجاتے ہیں تو پانی بھی نکل کر زیر زمین چلاجاتا ہے اور پھر چشموں، کنوؤں، ٹیوب ویلوں یا سیم کی شکل میں باہر آکر اپنے سفر پر روانہ ہوتا ہے ،نہ کم نہ زیادہ، جتنا روز ازل سے آمدہ پانی اور ہوا تھی اتنی اب بھی ہے۔کہ کوئی چیز فنا نہیں ہوتی۔