محکمہ فشریز پنجاب کے مطابق قصور، حافظ آباد اور مظفرگڑھ وہ اضلاع ہیں جہاں درجنوں فش فارمز مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہوگئے۔ تیز بہاؤ نے لاکھوں مچھلیاں کھلے پانی میں بہا دیں اور فارمرز کے تیار شدہ تالاب، مٹی کے بند اور دیگر ڈھانچے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئے۔
ابتدائی تخمینوں کے مطابق یہ نقصان کروڑوں روپے تک پہنچ چکا ہے۔
قصور کے ایک فش فارمر محمد اشفاق کا کہنا ہے کہ انہوں نے رواں سال 20 لاکھ روپے کی سرمایہ کاری سے مچھلیاں پالی تھیں لیکن اچانک آنے والے سیلاب نے سب کچھ بہا دیا۔
مظفرگڑھ کے فارمر نذیر احمد کے مطابق وہ نہ تو بینک کا قرضہ واپس کر پائیں گے اور نہ ہی آئندہ سیزن کی تیاری کر سکیں گے کیونکہ جو بچہ مچھلی تیار کی تھی وہ بھی پانی میں بہہ گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت فوری مالی معاونت فراہم نہ کرے تو یہ کاروبار بند ہو جائے گا۔
فش فارمرز ایسوسی ایشن پنجاب کے صدر رانا شمشاد نے بتایا کہ سیلاب کے نتیجے میں 40 سے 45 ہزار ایکڑ پر قائم فش فارم متاثر ہوئے ہیں۔ ان کے بقول صرف ان کے اپنے 500 ایکڑ فارم میں موجود تمام مچھلیاں بہہ گئیں جبکہ انفرا اسٹرکچر، خاص طور پر سولر پینلز، بھی تباہ ہوگئے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک ایکڑ کے فش فارم پر عموماً ساڑھے چھ سے سات لاکھ روپے تک لاگت آتی ہے، اس حساب سے نقصان اربوں روپے تک پہنچ سکتا ہے۔ تاہم درست تخمینہ سیلاب کا پانی اترنے کے بعد ہی لگایا جا سکے گا۔
پنجاب میں زیادہ تر مچھلی کی پیداوار میں کالا رہو شامل ہے جو ملکی طلب کا ایک بڑا حصہ پورا کرتا ہے۔ ماہرین کے مطابق حالیہ نقصان سے نہ صرف کسان متاثر ہوئے ہیں بلکہ اس کے اثرات مارکیٹ میں بھی فوری طور پر نظر آنے لگے ہیں۔
لاہور فش مارکیٹ کے صدر چوہدری اسلام نے بتایا کہ جنوبی اور وسطی پنجاب سے روزانہ بڑی مقدار میں مچھلی لاہور لائی جاتی تھی لیکن سیلاب کی وجہ سے پیداوار میں تقریباً 40 فیصد کمی آگئی ہے۔ ان کے مطابق سپلائی کم ہونے سے قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہوگا اور آئندہ دنوں میں مچھلی کے نرخ 30 سے 40 فیصد تک بڑھ سکتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق پنجاب میں فش فارمنگ ایک تیزی سے بڑھتا ہوا شعبہ ہے۔ پنجاب فشریز کے اعداد و شمار کے مطابق صوبے میں اس وقت تقریباً 60 سے 65 ہزار ایکڑ رقبے پر فش فارمز قائم ہیں جہاں کارپ فش کی مختلف اقسام کے ساتھ جھینگے بھی پائے جاتے ہیں۔ اس صنعت نے دیہی معیشت میں اہم کردار ادا کیا ہے اور ہزاروں خاندانوں کا روزگار اس سے جڑا ہوا ہے لیکن ماہرین کے مطابق موسمیاتی تبدیلی اور بارشوں کے غیر متوقع پیٹرن نے اسے غیر یقینی خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔
اس صورتحال پر بات کرتے ہوئے پنجاب فشریز کے ڈائریکٹر جنرل رانا سلیم افضل نے کہا کہ تمام متاثرہ اضلاع کو ہدایات دی گئی ہیں کہ وہ فش اور جھینگا فارموں کو پہنچنے والے نقصانات کی تفصیلی رپورٹس تیار کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ فش فارمرز ایسوسی ایشن سے بھی کہا گیا ہے کہ وہ اپنے اپنے نقصانات کا تخمینہ لگائیں تاکہ حکومت کو حتمی رپورٹ پیش کی جا سکے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف اور سینیئر وزیر مریم اورنگزیب پہلے ہی اعلان کر چکی ہیں کہ سیلاب متاثرہ کسانوں کو تنہا نہیں چھوڑا جائے گا اور ان کی بحالی کے لیے خصوصی پیکج دیا جائے گا۔
فش فارمرز ایسوسی ایشن کے مطابق اگر حکومت نے فوری اقدامات نہ کیے تو نہ صرف ہزاروں فارمرز دیوالیہ ہو جائیں گے بلکہ ملک میں پروٹین کے ایک بڑے اور نسبتاً سستے ذریعہ خوراک کی شدید قلت پیدا ہو سکتی ہے۔
ماہرین نے تجویز دی ہے کہ حکومت متاثرہ کسانوں کے قرضے معاف کرے، نئے تالابوں اور انفرا اسٹرکچر کی تعمیر کے لیے آسان شرائط پر قرضے دیئے جائیں۔