سہیل آفریدی کو وزیراعلیٰ بنوا کر بانی پی ٹی آئی نے ثابت کیا کہ وہ جسے چاہیں ہٹا سکتے ہیں اور جسے چاہیں، وزیراعلیٰ بنا سکتے ہیں، پی ٹی آئی کی قیادت اور پارلیمنٹرینز میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ اپنی مرضی سے کچھ کرسکیں۔ علی امین گنڈا پور جو علیمہ خان کے ساتھ اختلافات کے دوران کہا کرتے ہیں کہ جس میں ہمت ہے، وہ اس کے خلاف عدم اعتماد لے آئے لیکن جیسے ہی نئے وزیراعلیٰ کی نامزدگی ہوئی، ان کے پاس سوائے تعمیل حکم کے کوئی چارہ کار نہیں تھا۔
علی امین گنڈا پور کی تبدیلی کی تین وجوہات سامنے آئیں۔اول، بانی پی ٹی آئی کی جانب سے مسلسل حکم کے باوجود وزیر اعلی اپنے صوبے میں جاری دہشت گردوں کے خلاف آپریشن بند کرانے میں ناکام رہے بلکہ کھل کر مخالفت بھی نہ کرسکے ۔ بانی پی ٹی آئی کے بقول وہ پارٹی سے زیادہ جھکاؤ اسٹیبلیشمنٹ کی طرف رکھتے ہیں ۔دوئم، وہ بطور وزیر اعلی اور صوبائی قیادت بانی پی ٹی آئی کی حمایت میں کوئی ایسی بڑی احتجاجی تحریک چلانے میں کامیاب نہیں ہوسکے ، جس کی وجہ سے وفاقی حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ کو دباؤ میں لایا جا سکے۔
اسی طرح علی امین گنڈا پور اور اسٹیبلیشمنٹ کے درمیان رابطہ کاری بھی بانی پی ٹی آئی کو مقدمات میں کوئی بڑا ریلیف نہیں دے سکی۔سوئم، ایک طرف علی امین گنڈا پور کی صوبائی سطح پر پارٹی میں قبولیت اور کردار پر سخت تنقید ہورہی تھی تو دوسری طرف بانی پی ٹی آئی کی بہن علیمہ خان پر جو سنگین الزامات عائد کیے گئے، اس سے بھی علی امین گنڈا پور کو پارٹی میں بھی اور بانی پی ٹی آئی کے سامنے سیاسی سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔ایک دلیل یہ دی جا رہی ہے کہ بانی پی ٹی آئی اپنی جماعت میں مزاحمت کی سیاست کی بنیاد پر آگے بڑھنا چاہتے ہیں اور صوبہ خیبر پختونخوا کو عملا اس مزاحمت کی تحریک کا مرکز بنا کر وفاقی حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ پر بڑے دباؤ کی سیاست پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن علی امین گنڈا پور بانی کا یہ ہدف پورا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
پی ٹی آئی یا بانی پی ٹی آئی خیبر پختونخوا میں دہشت گردوں کے جاری آپر یشن رکوانا چاہتے ہیں ، اس کے علاوہ وہ چاہتے تھے کہ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ افغانستان جاکر خود براہ راست طالبان کے ساتھ معاملات طے کریں لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ ادھر یہ واضح ہوچکا ہے کہ وفاقی حکومت بالخصوص اسٹیبلیشمنٹ ٹی ٹی پی اور افغان طالبان کو دہشت گردی کے ایشو پرکوئی ڈھیل دینے کے لیے تیار نہیں ہے اور نہ اس معاملے پر مذاکرات کی حامی ہے اور اس نے فیصلہ کرلیا ہے کہ دہشت گردوں اور ان کے داخلی اور خارجی سہولت کاروں اور ہینڈلر و فنانسرز کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نبٹا جائے گا۔ نئے وزیر اعلی سہیل آفریدی نے اپنی پہلی تقریر میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کی مخالفت کا اعلان کیا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جنگیں یا طاقت کا استعمال مسائل کا حل نہیں سمجھا جاتا لیکن یہ بات بھی پیش نظر رکھنی ہوگی کہ افغانستان کی سرزمین مسلسل پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہورہی ہے ۔ افغانستان کی طالبان حکومت دہشت گردوں کی سہولت کاری کررہی ہے، پاکستان کے تحفظات کے باوجود ہمیں افغان حکومت سے وہ مدد نہیں مل رہی جو ہمیں درکار ہے ۔بلکہ یہ دیکھا جارہا ہے کہ افغان قیادت بھارت کی گود میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف جارحیت پر اتر آئی ہے ۔ایسے میں مذاکرات کیسے شروع ہوںگے اور کون اس کاضامن بنے گا۔ افغانستان کی طالبان قیادت ناقابل اعتبار ہوچکی ہے۔چین کی ثالثی کا عمل بھی کمزور نظر آرہا ہے ۔
طالبان پاکستان کے تحفظات پر سنجیدگی دکھانے کے لیے تیار نہیں۔ اگر ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد گروہوں کی سرپرستی جاری رہے گی تو ایسے میں مذاکرات کی بات کرنا، احمقانہ بات نظر آتی ہے۔ ایسی صورت حال میں پاکستان کی وحدت،سالمیت اور سرحدوں کا تحفظ اولین ترجیح بن جاتی ہے۔ وفاقی حکومت ، صوبائی حکومتیں ، قومی اورصوبائی سیاسی و مذہبی سیاسی جماعتوں کی قیادت پاکستان کی سلامتی،وحدت اور ملکی سرحدوں کے تقدس و تحفظ کے برعکس موقف اختیار نہیں کرسکتیں۔ سب کو دہشت گردوں اور دہشت گردی کے خاتمے کے ایجنڈے پر متفق ہونا پڑے گا۔خیبر پختونخوا، بلوچستان اور دیگر صوبے میں ہونے والی دہشت گردی کے تناظر میں سیاسی تقسیم اور ٹکراؤ کی گنجائش نہیں ہے۔
ہم اپنے ملک پر کسی گروہ یا دوسرے ملک کے مفادات کو اہم قرار نہیں دے سکتے۔ایسے میں اگر ایک یا دو جماعتیں یا کسی صوبے کی حکمران جماعت اور وزیر اعلی دہشت گردی سمیت دیگر سیاسی مسائل پر وفاق سے ٹکراؤ کی پالیسی کی طرف بڑھتے ہیں تو یہ کوئی اچھی حکمت عملی نہیں ہوگی۔اس لیے خیبر پختونخوا کے نئے وزیر اعلی کو کسی ایسے اقدام سے گریز کرنا چاہیے جو مزاحمت کے نام پر کسی بڑے ٹکراؤ کو پیدا کرسکے۔کیونکہ اگر ہم داخلی طور پر کسی بڑے ٹکراؤ کی سیاست کا حصہ بنیں گے تو اس سے نہ صرف حالات اور زیادہ بگاڑ کا شکار ہوںگے بلکہ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ بھی متاثر ہوگی اور دہشت گرد ہماری داخلی تقسیم سے فائدہ اٹھائیںگے ۔ لیکن آخری نقصان وفاق پاکستان کی پالیسی سے ٹکرانے والوں کا ہوگا۔
لہذا اس داخلی ٹکراؤ سے بچنے کی حکمت عملی پر توجہ دینی ہوگی۔کیونکہ پہلے ہی دہشت گردی سے جڑے مسائل ہمیں سیاسی،معاشی اور سیکیورٹی کے تناظر میں کمزور کررہے ہیں اور یہ کمزوری کا عمل مجموعی طور پر ریاست کو درپیش ہے اور اسے صوبائی مسئلہ نہ سمجھا جائے ۔اس لیے سارے فریقین مل کر ہی مشترکہ حکمت عملی اختیار کریں اور دہشت گردی یا ان کے سہولت کاروں کے خلاف کوئی سمجھوتہ نہ کیا جائے۔
حکومت جو کچھ بھی کرے جمہوری،آئینی اور قانونی فریم ورک میں رہ کر کرے۔ دوسری طرف پی ٹی آئی نے مزاحمت کا راستہ ہی اختیار کرنا ہے تو وہ بھی جمہوری سیاسی اور آئینی و قانونی فریم ورک سے باہر نکل کر نہ کرے۔ ایسے طرز عمل سے ہی مل جل کر مشترکہ حکمت عملی اختیار کی جاسکتی ہے۔