امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات کو اعلان کیا ہے کہ وہ روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن سے ایک اور ملاقات کریں گے تاکہ یوکرین کی جنگ کے خاتمے کے لیے راہ ہموار کی جا سکے۔ اگرچہ ملاقات کی تاریخ طے نہیں کی گئی، تاہم ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر بتایا ہے کہ یہ ملاقات ہنگری کے دارالحکومت بوداپسٹ میں ہوگی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا ہینڈل ٹروتھ سوشل پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ، “میرا ماننا ہے کہ آج ہونے والی ٹیلی فونک گفتگو سے نمایاں پیشرفت ہوئی ہے۔‘‘
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق ٹرمپ اور پیوٹن کے درمیان فون کال دو گھنٹے سے زائد وقت تک جاری رہی۔
صدر ٹرمپ نے یہ بیان پیوٹن سے فون پر بات چیت کے بعد دیا ہے۔ اس سے قبل دونوں رہنماؤں کی اگست میں الاسکا میں ملاقات ہوئی تھی، تاہم اس ملاقات سے کوئی سفارتی کامیابی حاصل نہیں ہوسکی تھی۔
ادھر ہنگری کے وزیر اعظم وکٹر اوربان نے کہا ہے کہ ’امریکی اور روسی صدور کے مابین طے شدہ ملاقات دنیا کے امن پسند لوگوں کے لیے بہت اچھی خبر ہے۔‘ انھوں نے ایکس پر پوسٹ میں لکھا کہ ’’ہم تیار ہیں!‘
ٹرمپ اور پیوٹن کی آئندہ ملاقات سے قبل امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کی سربراہی میں امریکی حکام اگلے ہفتے روسی نمائندوں سے ملاقات کریں گے۔ تاہم ملاقات کی جگہ کا اعلان تاحال نہیں کیا گیا ہے۔
یہ فون کال اُس وقت سامنے آئی جب صدر ٹرمپ جمعے کو وائٹ ہاؤس میں یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی سے ملاقات کی تیاری کر رہے ہیں۔ زیلنسکی طویل عرصے سے امریکا سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ یوکرین کو ٹام ہاک کروز میزائلز فروخت کرے تاکہ یوکرینی افواج روس کے اندر گہرائی تک حملے کر سکے۔
زیلنسکی کا موقف ہے کہ ایسے حملے پیوٹن کو ٹرمپ کی براہ راست مذاکرات کی پیشکش کو سنجیدگی سے لینے پر مجبور کریں گے۔
ٹرمپ نے اتوار کو اسرائیل کے دورے پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ پیوٹن کے ساتھ بات چیت میں ٹام ہاک میزائلز کے مسئلے کو دباؤ کے ایک آلے کے طور پر استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان عارضی جنگ بندی اور یرغمالیوں کے تبادلے کے معاہدے کے بعد ٹرمپ نے کہا تھا کہ اب ان کی توجہ یوکرین جنگ کے خاتمے پر مرکوز ہے۔ وہ اس امکان پر بھی غور کر رہے ہیں کہ کیف کو طویل فاصلے تک مار کرنے والے ہتھیار فراہم کیے جائیں تاکہ ماسکو کو مذاکرات کی میز پر لایا جا سکے۔
یوکرین اور غزہ میں جنگوں کا خاتمہ ٹرمپ کی 2024 کی دوبارہ صدارتی مہم کا ایک مرکزی نکتہ ہے۔ ٹرمپ بارہا صدر جو بائیڈن کو ان تنازعات کے انتظام پر تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔ تاہم، اپنے پیشرو کی طرح ٹرمپ کو بھی پیوٹن سے مشکلات کا سامنا رہا ہے، کیونکہ وہ اب تک روسی صدر کو زیلنسکی کے ساتھ براہ راست مذاکرات پر آمادہ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔