مہمان خود ہی گواہ اور دستخط کنندہ بنے ، خود ہی ایک دوسرے کی مبارکی قبول کی۔انیس سو ترانوے کے اوسلو سمجھوتے میں کم ازکم ایک فلسطینی ریاست کے قیام کا سراب تو تھا۔شرم الشیخ میں تو سوائے دھمکیانہ ریت اور خیالی پانی کے کچھ بھی نہیں دکھائی دے رہا۔
صدر ٹرمپ واشنگٹن سے اڑ کے سیدھے مصر آنے کے بجائے تل ابیب کے بن گوریان ایرپورٹ پر اترے۔یروشلم میں اسرائیلی پارلیمنٹ ( کنیسٹ ) سے خطاب کیا۔اسرائیلی صدر نے ان کے لیے اعلیٰ ترین سویلین صدارتی تمغے اسرائیل میڈل کا اعلان کیا۔ٹرمپ نے اپنے خطاب میں نیتن یاہو کی بہادری ، ثابت قدمی اور جواں مردی کی تعریف کی۔
ٹرمپ نے کہا کہ نیتن یاہو ایک مشکل پسند شخص ہیں اور یہی خوبی انھیں ایک عظیم رہنما بناتی ہے۔امریکا دنیا کے بہترین ہتھیار بناتا ہے اور ہم نے یہ ہتھیار اسرائیل کو دیے۔نیتن یاہو نے اکثر کہا مجھے وہ ہتھیار بھی چاہیں مجھے یہ بھی چاہئیں۔ کچھ تو ایسے ہتھیاروں کے نام لیے جن کے بارے میں مجھے بھی علم نہیں تھا کہ یہ ہم نے بنائے ہیں۔( امریکا نے دو برس کے دوران غزہ کو ملیا میٹ کرنے کے لیے اکیس ارب ڈالر کے ہتھیار فراہم کیے )۔
ٹرمپ نے کہا کہ جنگ مسلسل جاری رکھنے کے بجائے اس جنگ میں فتح پر نیتن یاہو کو مبارک باد دیتا ہوں۔تاریخ انھیں اس وجہ سے یاد رکھے گی۔مگر عالمی رائے عامہ کا بھی اسرائیل کو خیال کرنا ہے۔جنگ بندی کے نتیجے میں دنیا اسرائیل کی زیادہ قدر کرے گی۔
اسرائیلی پارلینٹ سے خطاب میں ٹرمپ نے غزہ کی بربادی کا ہرگز زکر نہیں کیا الٹا فلسطینیوں کو نصیحت کی کہ وہ اب استحکام ، سلامتی اور معاشی پیش رفت پر توجہ مرکوز کریں۔ تشدد اور دھشت گردی کے راستے سے ہٹنے کا یہ سنہری موقع ہے۔وہ اپنے درمیان موجود نفرت پھیلانے والوں سے چھٹکارا پائیں۔ فلسطینیوں کی اسرائیل سے شکایات کی وجہ اسرائیل کا ان پر مادی کنٹرول ( قبضہ ) نہیں بلکہ اصل سبب ان کے اندر پلنے والی نفرت ہے۔اتنی ہلاکتوں اور سختیوں کے بعد اب وہ اسرائیل کو چیرنے پھاڑنے کا خیال چھوڑ کر اپنی تعمیرِ نو پر توجہ دی۔
پوری تقریر میں دو ریاستی حل کے لیے ایک جملہ تک نہیں تھا۔ غالباً امن سمجھوتے کے مسودے کی طرح ٹرمپ کی تقریر کا مسودہ بھی نیتن یاہو کے دفتر میں تیار ہوا تھا۔
ٹرمپ نے اسرائیلی صدر سے اپیل کی کہ نیتن یاہو اتنا عظیم آدمی ہے کہ آپ اس پر قائم بدعنوانی کے مقدمات داخلِ دفتر کر کے صدارتی معافی دے دیں۔اس پر کنیسٹ میں نیتن یاہو کے حامیوں نے ڈیسک بجا بجا کے ہتھیلیاں لال کر لیں۔
تاریخ میں شاید یہ پہلی بار ہوا کہ ایک ملک کے صدر نے کسی دوسرے ملک میں جا کر اس ملک کے وزیرِ اعظم کو ان مقدمات میں معاف کرنے کی درخواست کی ہو کہ جو ابھی زیرِ سماعت اور فیصلے کے منتظر ہیں۔
نیتن یاہو نے استقبالی کلمات میں ٹرمپ کو اسرائیل امریکا تعلقات کی تاریخ میں سب سے بڑا محسنِ اسرائیل قرار دیا۔
اس واہ واہی سے لدے پھندے ٹرمپ اس سمجھوتے پر دستخط کی تقریبی صدارت کے لیے شرم الشیخ پہنچے جس کا حتمی مسودہ نیتن یاہو ، ٹرمپ کے داماد جیرارڈ کشنر اور صدارتی مشیر سٹیو وٹکوف نے الٹی میٹم کے پانی سے گوندھ کر فلسطینیوں اور ’’ امتِ مسلمہ ‘‘ کے آگے یہ کہہ کے رکھ دیا کہ ’’ اٹھالو یا نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہو ‘‘۔
غزہ کے امن بورڈ کے سربراہ خود ٹرمپ ہوں گے۔غزہ کے وائسرائے ٹونی بلئیر ہوں گے۔ چار پانچ مسلمان ملکوں کے دستے اس بورڈ کے تحت غزہ میں امن و شانتی بنا کے رکھیں گے تاوقتیکہ فلسطینی اتھارٹی اس قابل نہیں ہو جاتی کہ وہ اپنے طور پر حماس سے پاک غزہ کا انتظام سنبھال سکے۔یعنی نو من تیل جمع ہونے تک رادھا ناچتی رہے گی۔
برطانیہ کو ایک سو پندرہ برس پہلے بھی لیگ آف نیشنز نے فلسطین کا امانت دار بنایا تھا۔تب برطانیہ کے ہاتھوں اسرائیل کی پیدائش ہوئی۔آج بھی ایک سابق برطانوی وزیرِ اعظم ٹونی بلئیر کو ’’ امن و ثالثی ‘‘ برقرار رکھنے کے لیے چننے کی سن گن ہے۔
یہ وہی ٹونی بلئیر ہیں جنھوں نے دو دہائی پہلے صدام حسین کے اسلحہ خانے سے وسیع تر تباہی والے خیالی ہتھیار صدر بش جونئیر کے ساتھ مل کے نکالے تھے ۔ان خیالی ہتھیاروں کو تلف کرنے کے بہانے پانچ لاکھ عراقی ضرور تلف ہو گئے مگر کسی نے جرائم کی بین الاقوامی عدالتِ کی زنجیر ہلانے کے بارے میں سوچا تک نہیں۔
جیرلڈ فورڈ ، جمی کارٹر ، رونالڈ ریگن ، جارج بش ، بل کلنٹن ، بش جونئیر اور بارک اوباما سمیت گذرے پچاس برس میں کون سا امریکی صدر گذرا جس نے ہر بار ایک نیا سمجھوتہ کرواتے ہوئے ’’ آج ‘‘ ایک نئے مشرقِ وسطی کے طلوع ہونے کی بات نہ کی ہو۔
ٹرمپ نے بھی یروشلم اور شرم الشیخ میں ایک نئے پرامن اور خوشحال مشرقِ وسطی کی بنیاد رکھنے کا دعوی کیا۔اس کا آسان ترجمہ یہ ہے کہ ایک ایسا مشرقِ وسطی جو اسرائیل اور امریکا کے ہر منصوبے کو بلا چون و چراں آمنا و صدقنا کہے اور جتنا بھی میسر آ جائے اس پر صبر شکر کرے۔ نیز علاقے کا کوئی ملک اس قابل نہ رہے جو اسرائیل کی عسکری برتری کو کسی بھی شکل میں چیلنج کر سکے۔
ٹرمپ کے بقول اب جو سمجھوتہ ہوا ہے وہ مشرقِ وسطی کے لیے ایک جامع امن کی بنیاد ہے۔مگر شرم الشیخ میں موجود شرق و غرب کے ہر اعلیٰ و ادنی کے دل میں یہ سوال تھا کہ کسی بھی سمجھوتے میں ایک آزاد و خود مختار فلسطینی ریاست کے امکان تک کا ذکر نہ ہو تو وہ پائیدار کیسے ہو سکتا ہے اور کب تک ؟ اسے جمائے رکھنے کے لیے تو اسرائیل کو کم از کم جنوبی لبنان اور شام کے تازہ زیرِ قبضہ علاقوں سے پیچھے ہٹنا پڑے گا۔مغربی کنارے پر یہودی بستیوں کی مزید تعمیر کون رکوائے گا ؟ سمجھوتے میں یہ تک واضح نہیں کہ اسرائیل جو اس وقت تریپن فیصد غزہ پر قابض ہے وہ کب تک وہاں سے اپنا انخلا مکمل کر لے گا۔اس سمجھوتے کے بعد سے اب تک اسرائیل غزہ میں روزانہ اوسطاً آٹھ سے دس لاشیں گرا رہا ہے۔
شرم الشیخ شاید اس لیے یاد رہے کہ بقول رحمان فارس
کہانی ختم ہوئی اور ایسی ختم ہوئی
کہ لوگ رونے لگے تالیاں بجاتے ہوئے
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)