خطرات کی زد میں (حصہ اول)

موجودہ صدی پوری دنیا کے لیے بے شمار خطرات اپنے ساتھ لے کر آئی ہے، زمینی و سماوی آفات کا کوئی شمار نہیں ہے، اس کے علاوہ انسان کی اپنی پیدا کردہ تکالیف اپنی جگہ ہیں۔ پاکستان میں تو ایسی صورتحال زمانہ بعید سے زمانہ قریب تک جوں کی توں ہے بلکہ مصائب و مسائل میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے۔

ان مشکلات کی خاص وجہ ناخواندگی ہے، جب تعلیم سے دوری ہو جاتی ہے تب انسان تہذیب، شرافت، ہمدردی اور رحم جیسی صفات سے محروم ہو جاتا ہے۔ ساتھ میں والدین کا بھی کردار ہے وہ اپنے بچوں پر بالکل توجہ نہیں دیتے ہیں۔

فی زمانہ ایسی ایسی مثالیں سامنے آئی ہیں کہ جانوروں نے اپنے عمل سے انسانوں جیسی عادات اور عفو و درگزرکو اپنا کر مثال قائم کر دی ہے۔ بلی،کتے اور دوسرے جنگلی جانور ایک دوسرے کے لیے مددگار بن گئے ہیں، زخمی اور مجبور اپنے ہم جنس جانوروں کی مدد اور ان کے بچوں کو گود لے کر ماں جیسا سلوک کرتے ہیں، لیکن آج کا انسان درندہ صفت بن چکا ہے۔

چند سکوں کی خاطر اپنے ہی بھائی کا خون کردیتا ہے، سفاکی کی انتہا نے اپنے والدین، بہن بھائیوں کو تھوڑے سے فائدے یا معمولی سے لڑائی جھگڑے پر جان سے مار دیتا ہے۔ اسلام سے قبل جس قدر ظالمانہ رسمیں اور طور طریقے رائج تھے، وہ سب آج کے زمانے میں لوگوں نے اپنا لیے ہیں۔

 طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک سڑکوں، شاہراہوں اور گھروں میں جنم لینے والے سانحات اپنے ساتھ قیامت لے کر آتے ہیں۔ نوحہ، بین اور گریہ و زاری متاثرہ علاقوں کو قبرستان میں بدل دیتی ہے۔ یہ تو ہمارے ملک میں ہونے والے روزمرہ کے خونی واقعات ہیں لیکن ذرا آگے دیکھیں دوسرے ملکوں کے حالات کو تو دل تڑپ جاتا ہے۔

غزہ میں ہزاروں لوگ شہید اور سیکڑوں بچوں کو والدین سے جدا کردیا گیا۔ ان کے جسم سے گوشت ختم ہوگیا لیکن ظالموں کو رحم نہیں آتا، ہر روز بمباری اور جاتے جاتے بھی مسلمانوں کے خون سے ہاتھ رنگ گئے اور اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔

سیکڑوں صحافیوں کو ابدی نیند سلانے کے بعد معروف صحافی صالح الحفراوی بھی شہید کر دیے گئے۔ جنگ بندی کے تاریخی امن معاہدے پر دستخط 20 سربراہان مملکت نے کیے۔

اس امن معاہدے کے باوجود غزہ، حماس و غمش میں جھڑپوں کے نتیجے میں 27 کی ہلاکت کی خبر ہے، پاکستانی سرحد پر بھی جھڑپیں جاری ہیں، ان جھڑپوں میں 200 افغان طالبان اور خوارج مارے گئے۔ پاک فوج کے 23 جوان شہادت کے درجے پر فائز ہوئے۔

کشمیر میں بھی مودی کی بربریت نے ہر گھرکا سکون برباد کر دیا ہے۔ کشمیری رہنما یٰسین ملک کی سزائے موت کے خلاف آواز اٹھانے اور اسلامی ملکوں کی تائید ضروری ہے، یٰسین ملک کا جرم اتنا ہی تو ہے کہ وہ آزادی کا استعارہ ہیں۔

شرم آنی چاہیے ہندوستان کے مقتدر حضرات کو، وہ روز اول سے ہی پاکستان کے حصے میں جو خطے آئے تھے، ان کے حصول کے لیے خون کی ندیاں بہا رہے ہیں۔

اگر 57 ملکوں کے اسلامی سربراہان ان دنوں ہی سے اتحاد کی شکل میں سامنے آتے اور اپنے مسلمان بھائیوں کو صہیونیوں، نصرانیوں اور اہل ہنود کے مظالم اور درندگی سے بچانے کے لیے بیانات کے ساتھ عملی اقدامات کرتے تو آج مسلمان کفارکی ایذا رسانی سے بچ سکتے تھے۔

یہ تو پاکستان اور باہرکی دنیا کے حالات تھے جہاں ہر مسلمان ہی ناانصافی، درندگی اور بربریت کی چکی میں پس رہے ہیں۔ اب رہے پاکستان کے اندرونی حالات یہاں امن و سکون عنقا ہو چکا ہے۔

پاکستان اور بیرون پاکستان کے دانشور، علما، اساتذہ، اہل علم و فن، عام شہری، مچھلی پھل اور چاٹ فروخت کرنے والے بھی ایک ہی نعرہ لگا رہے ہیں کہ ملک میں انصاف قائم کیا جائے۔غریب عوام کے انصاف دیا جائے ،مظلوم عوام کے ساتھ ایسا سلوک کیوں؟ ان حالات میں عوام معجزے کا انتظار کر رہے ہیں۔

کیا ہی اچھا ہو کہ صاحبان اقتدار اپنے اعمال نامے کا جائزہ لیں اور انھیں حق کے ترازو میں تولیں اور پھر جو بھی نتیجہ آئے اس کو قبول کر لیں ، اگر نیکی کا پلڑا بھاری ہوا تو رب جلیل مالک کائنات کے حضور سجدہ شکر بجا لائیں کہ اس دور میں وہ گناہ کبیرہ سے دور رہا۔

پاکستان کا ہر خطہ بنیادی ضرورتوں سے محروم ہے، بلوچستان میں بھی ناانصافی اور مفاد پرستی عروج پر ہے وہاں پر بسنے والے خاندان کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں، وہ اپنوں کی مدد کی طالب ہیں ان کے گھر بار اور بچے بے آسرا ہو چکے ہیں اس جگہ انصاف اور امن کی روشنی کو پھیلانے کی ضرورت ہے یہ ہمارے ہی مسلمان بھائی ہیں۔

بلوچستان کی پسماندگی کی ایک بڑی وجہ وہاں کا قبائلی نظام ہے،قبائلی سردار اپنے ہی لوگوں کی تعلیم،صحت کی بہتر سہولتوں، بہتر روزگار اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔قبائلی سردار اپنے لوگوں کو پسماندہ رکھنا چاہتے ہیں کیونکہ جب تک لوگ پسماندہ رہیں گے ،قبائلی نظام کو تحفظ ملتا رہے گا،قبائلی نظام کی بقا لوگوں کی پسماندگی اور جہالت میں مضمر ہے۔

 (جاری ہے۔)

Similar Posts