ایسے میں اس نے افغانستان کے وزیر خارجہ ملّا متقی کو اپنے ہاں مہمان نوازی کا موقع فراہم کیا ہے۔ افغانی وزیر خارجہ کئی دن دہلی میں گزار کر واپس کابل چلے گئے ہیں۔ طالبان وزیر خارجہ کا یہ دورہ افغان حکومت کی اعلیٰ قیادت کے حکم پر ہی عمل میں آیا تھا مگر اس دورے نے طالبان کے اصولوں کا جنازہ نکال دیا ہے۔
افغان طالبان خواتین سے کتنی نفرت کرتے ہیں، پوری دنیا کو پتا ہے۔ افغانستان کی خواتین طالبان سے اس قدر بے زار ہیں کہ وہ ان کی حکومت کے لیے بددعائیں ہی کرتی ہوں گی۔ اس لیے کہ انھیں وہاں غلام بنا کر رکھا گیا ہے۔
انھیں اسکولوں کالجوں میں تعلیم تک حاصل کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ ان کے لیے نوکریوں کے دروازے بند ہیں۔ دکانداری نہیں کر سکتیں، کسی سرکاری عہدے پر فائز نہیں ہو سکتیں۔ سیاست ان کے لیے شجر ممنوعہ ہے۔
دہلی میں ملّا متقی نے اپنی پہلی پریس کانفرنس میں خواتین صحافیوں کو اس میں شرکت کی اجازت نہیں دی تھی مگر اس پریس کانفرنس پر بھارتی میڈیا نے ایسا شور مچایا اور طالبان کے رویے کو جاہلانہ اور نا قابل قبول قرار دیا، چنانچہ متقی کو دوبارہ پریس کانفرنس کرنا پڑی اور اس میں شرکت کے لیے خواتین کو دعوت دی گئی۔
اس طرح طالبان کے خواتین سے متعلق اصول چکنا چور ہوگئے۔ طالبان خواتین کے ساتھ اپنے ہاں جو رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں، اسے وہ اسلامی طریقہ بیان کرتے ہیں جو سراسر غلط ہے۔ اسلام نے کب خواتین کی تعلیم پر پابندی عائد کی ہے، خواتین کو تو اتنی آزادی حاصل تھی کہ وہ میدان جنگ میں آ کر باقاعدہ زخمی صحابہ کرامؓ کی مرہم پٹی کرنے کا فرض نبھاتی تھیں۔
پھر نبی کریمؐ کی حدیث ہے کہ ’’ تعلیم کا حصول ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے‘‘۔ افسوس کہ طالبان خود کو کٹر مسلمان ضرورکہتے ہیں مگر انھوں نے اہم اسلامی تعلیمات کو یکسر نظرانداز کر دیا ہے یا اپنے فائدے کے مطابق استعمال کرتے ہیں۔
وہ کابل پر قابض ضرور ہیں مگر ان کی حکومت غیر جمہوری اور عارضی ہے جو کسی بھی وقت ختم ہو سکتی ہے، اس لیے کہ افغانستان میں شروع سے یہ ہوتا آیا ہے کہ ایک گروہ دوسرے کو شکست دے کر اقتدار پر قابض ہو جاتا ہے۔
افغان طالبان اس وقت پاکستان سے ناراض ہیں مگر افسوس کہ وہ پاکستان کے احسانوں کو فراموش کر چکے ہیں۔ ویسے افغانستان کے عوام کے ساتھ پاکستان کے بہت سے احسانات ہیں۔ یہ پاکستان ہی تھا جس نے افغانوں کو سوویت یونین کے تسلط سے آزاد کرایا تھا۔
حالانکہ بھارت انھیں روسی تسلط میں رکھنا چاہتا تھا مگر پاکستان نے ان کی آزادی کے لیے روس سے ٹکر لے کر کتنی ہی قربانیاں دی تھیں جب کہ روس اس وقت ایک سپرپاور تھا اور اس سے ٹکر لینا کوئی معمولی بات نہیں تھی۔
پاکستان نے یہ مشکل جنگ جیتی اور روسی فوج کو افغانستان سے نکال باہر کر دیا۔ اس سلسلے میں پاکستان کو امریکی مدد ضرور حاصل تھی مگر افرادی قوت اور حکمت عملی تو پاکستان کی ہی تھی۔ افسوس کہ اس کے بعد افغان اپنی سرزمین کی پھر حفاظت نہیں کر سکے اور امریکا نے پورے افغانستان کو اپنی جاگیر بنا لیا۔
اس نے وہاں مستقل ڈیرہ ڈالنے کا ارادہ کر لیا تھا کیونکہ فوجی حکمت عملی کے لحاظ سے یہ ملک اس کے لیے بہت سودمند ثابت ہوا تھا۔ افغانستان برسوں امریکا کے زیر تسلط رہا، افغانوں نے امریکا سے اپنی سرزمین کو خالی کرانے کی بہت کوشش کی مگر اس میں کامیاب نہیں ہوسکے۔
طالبان نے امریکا کو افغانستان سے باہر نکالنے کے لیے گوریلا جنگ کا سہارا لیا۔ مگر وہ اس عالمی طاقت کو ہٹانے سے قاصر تھے، پھر یہ پاکستان تھا جس نے امریکی حکومت سے مخاصمت مول لے کر امریکا کو افغانستان خالی کرنے پر مجبور کر دیا ۔
طالبان نے درپردہ ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو اپنے ساتھ ملائے رکھا۔ اب موجودہ صورت حال یہ ہے کہ طالبان پاکستان کے احسانات بھول چکے ہیں ۔ انھوں نے ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں اپنے سینے سے لگا رکھا ہے، ٹی ٹی پی کے کئی رہنما طالبان کے اعلیٰ عہدیدار بھی بن چکے ہیں، ٹی ٹی پی پاکستان میں مسلسل دہشت گردی کر رہی ہے۔
ملّا متقی کا حالیہ دورہ دہلی بھارت سے دوستی کو استوار کرنا ہے ۔ اب بھی وقت ہے کہ وہ سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں ورنہ وہ اپنے اقتدار کے ساتھ ساتھ اپنے وجود سے بھی کہیں ہاتھ نہ دھو بیٹھیں۔