سب سے اہم رشتہ

’’ان کے تین بیٹے ہیں، تینوں بڑے تعلیم یافتہ اور بڑی اچھی ملازمتوں پر ہیں، پیرنٹس یہاں ہیں تو ان کی والدہ اپنے تینوں بیٹوں کے لیے لڑکیاں ڈھونڈتی رہتی ہیں۔ انھوں نے مجھ سے بھی کہا تھا کہ ان کے بیٹوں کے لیے تعلیم یافتہ سلجھی ہوئی بڑی اچھی لڑکیاں دکھاؤں۔ 

یہ میرے رشتے دار بھی لگتے ہیں دور کے، تو میری بھابھی نے مجھے بتایا کہ ان کے تینوں بیٹے وہیں اپنی شادیاں اپنی پسند سے کر چکے ہیں، میں تو سنتے ہی شاکڈ رہ گئی کہ یہ کیا۔۔۔ یہ تو یہاں ان کے لیے رشتے دیکھ رہی ہیں اور آج بھی ان کے لیے رشتہ دیکھنے گئی ہوئی ہیں۔‘‘

’’ تو آپ نے انھیں بتایا نہیں کہ آپ کے بیٹوں نے وہاں شادیاں کر رکھی ہیں؟‘‘

’’ ارے ایک بار میں نے ان سے کہا بھی تھا کہ آپ کے بیٹے تو پاکستان آ نہیں رہے اور آپ ان کے لیے رشتے دیکھ رہی ہیں، کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ کے بیٹوں نے باہر شادی کر رکھی ہے۔ وہ کہنے لگیں ارے نہیں، میرے بیٹے ایسے نہیں ہیں، وہ تو ہر کام مجھ سے پوچھ کر کرتے ہیں، اب میں کیا بتاؤں دونوں میاں بیوی کی عمر اور بچوں پر اتنا اعتماد دیکھ کر کیا کہوں کہ وہ صدمے میں نہ آجائیں۔‘‘

یہ گفتگو ابھی ادھوری تھی کہ ان کا کوئی ضروری فون آ رہا تھا، لہٰذا وقفے کے بعد پھر سے تار جڑے۔

مسز ماجدہ ناصرکراچی کے سرکاری کالج کی پرنسپل اور بزم طلبا ریڈیو پاکستان کراچی کی ممبر تھیں جنھوں نے کم عمری سے ہی اپنے تئیں سوشل ورک کرنا شروع کر دیا تھا۔ ایک نویں دسویں کی طالبہ جو ڈس ایبل فاؤنڈیشن کے لیے وائس ریکارڈ کر کے دیتی تھیں۔

ریڈیو پاکستان کراچی سے پروگرام بچوں کی دنیا سے آج تک کے سفر میں ان کے تجربات و مشاہدات حیرت انگیز ہیں لیکن ہمارے یہاں ان سے فائدہ اٹھانے کا رواج نہیں ہے۔

آج سے چند مہینے پہلے سوشل میڈیا پر کالج کی لڑکیوں کے حوالے سے چند وڈیوز دیکھ کر دنگ رہ گئے کہ خدایا ہمارے یہاں یہ کیا چل نکلا ہے، زندگی کی تیز رفتاری اپنی جگہ، پر اقدار و روایات اور اپنی جگہ، پھر اسلامی ملک میں ایسی واہیات حرکات کی کیا گنجائش۔ اسی سلسلے میں سوچا تھا کہ ماجدہ صاحبہ سے پوچھا جائے، پر جو کچھ سنا اس پر انگشت بہ دنداں رہ گئے۔

’’ میں اپنی اسٹوڈنٹ لائف سے ہی پڑھا رہی ہوں، 92 میں یونیورسٹی سے آ کر ایک پرائیویٹ کالج تھا جو ہمارے گھر کے پڑوس میں ہی تھا اور ان کو ضرورت بھی تھی ٹیچر کی، تو تب سے یہ سلسلہ جڑا اور کالج کی پرنسپل کے عہدے پر جا کر رکا۔

اس زمانے میں ایسا ماحول نہیں تھا جیسا آج کل کا ہے، مجھے پڑھانے کا شوق بھی تھا تو بس ہم لگ گئے لیکن ماحول کا فرق انسان کی عقل پر اثرانداز تو ہوتا ہی ہے۔ میرا خیال ہے کہ آج کل جو بچے غلط عادات میں مبتلا نظر آتے ہیں، دراصل ان کے گھر کی تربیت اور والدین بھی کچھ اسی طرح کے ہوتے ہیں۔

میں نے ایک کالج میں تقریباً چودہ سال کام کیا، پرنسپل تھی میں۔ وہاں ایک بچی کی کسی لڑکے سے بات چیت تھی اور باقاعدہ بھاگ کر شادی کی بات ہو رہی تھی تو ہماری ایک ٹیچر نے مجھے آ کر بتایا تو میں نے اس کے گھر والوں کو بلایا، اس کی ماں اپنے ساتھ چھ سات عورتوں کو لے آئی، آپ یقین کریں وہ الٹا ہم سے لڑنے کھڑی ہو گئیں کہ کون سا لڑکا فون سے نکل کر آجاتا، آپ ہماری بچی پر الزام لگا رہی ہیں۔ پھر ہم نے اس کے وائس میسجز سنائے تو وہ ذرا شرمندہ ہوئیں۔

اور میرا خیال ہے کہ شاید وہ خود بھی لڑکا، لڑکی کے اس طرح کے معاملات کو غلط نہیں سمجھتی تھیں، تو انھیں اپنی بچی کے لیے بھی ایسا ہی لگا۔ اس طرح ایک اور بچی باقاعدہ بیگ میں کپڑے رکھ کر لائی تھی، ہماری ٹیچر نے اس کی گفتگو سن لی اور پھر وہ میرے پاس آئی، اس کے والدین کو بلایا اس کا والد اچھا انسان تھا۔

آپ سوچ نہیں سکتے کہ بچیاں خود ہی ساری کہانی بن لیتی ہیں، ایسے ہی وہ بچی کچھ سوچے سمجھے بغیر اس لڑکے سے ملنے جا رہی تھی جس نے ہوٹل میں کمرہ بک کروایا ہوا تھا۔ ذرا سوچیں کہ اگر ہم اسے نہ پکڑتے تو کتنا بڑا نقصان ہو جاتا اس بچی کا۔ باپ نے بہت شکریہ ادا کیا اور پاؤں سے چپل اتار کر وہیں شروع ہو گئے تو ہم سب نے انھیں سمجھایا کہ جناب یہ کالج ہے۔‘‘

کالج کی بچیوں بچوں میں ڈرگز کے استعمال کے بارے میں کیا کہتی ہیں؟ دیکھیں لڑکے تو پھر بھی ذرا کھلے ہوتے ہیں، چھوٹی سی عمر میں بھی سگریٹ پینا شروع کر دیتے ہیں، پر لڑکیوں کے حوالے سے یہ باتیں زیادہ تشویش ناک ہیں۔

ویپ اور پوڈ کے علاوہ ایک الیکٹرک کا بھی کوئی نشہ ہوتا ہے۔ ہر کالج کے بارے میں تو نہیں کہہ سکتی لیکن ایسا ہے اور ہو رہا ہے۔ ایک بار ایک بچی کو ویپ پینے سے منع کیا تو وہ برا مان گئی کہ آپ کیوں روک رہی ہیں؟ آپ کو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔

اور جب ہم نے والدین کو بلا کر شکایت کرنے کی بات کی تو کہنے لگی کہ ہاں بلا لیں، وہ کیا کر لیں گے؟ میں تو حیران ہوں کہ بچیاں کس مزے سے ایسی باتیں کر لیتی ہیں، تو اس کی وجہ گھر کا ماحول ہے۔ جہاں اتنی آزادی حاصل ہے کہ ایسی باتیں مائنڈ ہی نہیں کی جاتیں۔

پرانے اور نئے زمانے میں فرق کی وجہ مسز ماجدہ موبائل فون کے بلا دریغ استعمال کو گردانتی ہیں۔ موبائل فون بچوں بچیوں کو ہر وہ چیز فراہم کر رہا ہے جو دیکھنا ممنوع ہے، خاص کر وہ چیز ضرور دیکھی جاتی ہے جس کے لیے کہا جاتا ہے کہ اٹھارہ سال سے کم عمر افراد نہ دیکھیں۔

ہر ایک کے ہاتھوں میں موبائل فونز ہے اور جھجک ختم ہوتے ہوتے نڈر اور بہادر بنا رہی ہے۔ ایک اور خیال یہ بھی ابھر رہا ہے کہ جتنے برہنہ ہوں گے اتنے ہی ماڈرن کہلائے جائیں گے۔

یہ فیشن نہیں بلکہ حماقت ہے۔ والدین بچوں سے کونسلنگ نہیں کرتے، ان سے بات چیت نہیں کرتے، انھیں بلا مقصد گھومنے پھرنے چھوڑ دیتے ہیں اور مسائل بچوں کے معصوم ذہنوں کو پراگندہ کر رہے ہیں اور بڑے مسائل پیدا کر رہے ہیں ۔

میں اس میں گھر کی تربیت کو الزام دوں گی، وہ اپنی لائف انجوائے کرنے کے چکر میں اپنے بچوں کی لائف خراب کر رہے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ بچوں کے اٹھنے بیٹھنے، بات چیت، عادات و اطوار سب پر نظر رکھیں۔ انھیں اپنا دوست بنائیں تاکہ وہ اپنے مسائل اپنی باتیں والدین سے شیئر کریں، غلط جگہوں اور لوگوں میں نہ الجھیں۔

ساری باتوں کا نچوڑ، گھر کی تربیت اور والدین ہیں۔ والدین کو چاہیے بچوں کو زندگی کی سہولیات فراہم کرنے کے چکر میں گھن چکر بننے کے بجائے ان کے دوست، ساتھی بنیں کہ مادی اشیا تربیت کے عمل میں معاون تو ثابت ہو سکتی ہیں پر سب کچھ نہیں ہو سکتیں۔

پر ہم اپنے بچوں کی ہر خواہش کی تکمیل میں جت جاتے ہیں پر ان کے ساتھ بیٹھ کر، ہنس بول کر دل کی باتیں کرنے کے عمل کو وقت ضایع کرنے کے مترادف سمجھتے ہیں۔ کیا درست ہے اور کیا غلط یہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اپنے اہم رشتوں کو نظرانداز نہ کریں۔

Similar Posts