زلزلے

جس علاقے میں اسلام آباد تعمیر کیا گیا ہے وہ تھرسٹ زلزلوں کے زون میں ہے۔ آٹھ اکتوبر 2005 کے زلزلے کے حوالے سے بھی کچھ حقائق سامنے آئے۔ ایوب خان نے اسلام آباد شہر بنانے کا فیصلہ کیا تو یحییٰ خان کی سربراہی میں ایک جائزہ کمیٹی تشکیل دی۔

کمیٹی نے پورے پاکستان کا جائزہ لے کر دو جگہوں کو دارالحکومت کے لیے تجویز کیا، ایک تو پوٹھوہار میں موجودہ اسلام آباد کا علاقہ اور دوسرا وسطیٰ پنجاب میں جوہر آباد / خوشاب کا علاقہ، حتمی فیصلہ اسلام آباد کے حق میں ہوا۔

ماہرین نے جو رپورٹ دی اس کے مطابق اسلام آباد کی مجوزہ جگہ زلزلے کی فالٹ لائن پر ہے ۔ یہ علاقہ اگر کبھی شدید زلزلوں کے زون میں آ جائے تو اس کے لیے احتیاطی اور حفاظتی تدابیر ضرور کی جائیں۔

مزید لکھا گیاکہ اس علاقے میں پانی کی قلت کا سامنا بھی ہو سکتا ہے۔ یہاں زیادہ بلند عمارتیں نہ بنائی جائیں، گھروں اور عمارتوں کے ساتھ لان اور کھلی جگہ ضرور چھوڑی جا ئے، ایک مکان سے دوسرے کے درمیان کم از کم دس فٹ کا فاصلہ ہو۔

برطانیہ کی بی جی ایس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کشمیر کے علاقے میں 1905میں بھی ایک شدید زلزلہ آیا جس کی قوت ریکٹر اسکیل پر 8.6 تھی۔ اس وقت سے کشمیر اور اس سے ملحقہ علاقوں کا شمار انتہائی شدید زلزلے والے زون میں شمار کیا جاتا ہے۔

1935میں کوئٹہ میں زلزلہ آیا ۔ آٹھ اکتوبر کا زلزلہ کشمیر اور اس کے ملحقہ ایسے علاقے میں آیا ۔ زلزلے کی وجہ سے پہاڑوں پر لینڈسلائیڈنگ بھی ہوئی ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ زلزلوں کے خطرات کے اعتبار سے آزاد کشمیر، مانسہرہ، پوٹھوہار، شمالی علاقے اور خصوصاً چترال کا شمار زون ون میں ہوتا ہے۔

 یہACTIVE FAULT LINE اسلام آباد کے شمالی حصے ہزارہ سے ہوتی ہوئی مشرق میں آزاد کشمیر اور بھارتی مقبوضہ کشمیر کے کچھ حصوں سے گزرتی ہوئی مغرب میں چترال تک چلی جاتی ہے۔

چترال سے یہ لائن افغانستان کے کچھ حصوں سے گزرتی ہوئی کوہ ہندو کش کے پہاڑی سلسلے میں داخل ہوتی ہے، جہاں سے یہ FAULT لائن مغربی بلوچستان سے ہوتی ہوئی کوئٹہ پہنچتی ہے۔ کوئٹہ کے بعد وسطیٰ بلوچستان سے گزرتی ہوئی یہ بلو چستان کے ساحلی علاقوں سے شمالی بحرہ عرب میں داخل ہوتی ہے۔

پاکستان میں زلزلوں کے اعتبار سے اب تک جو حقائق سانے آئے ہیں ان کے مطابق پاکستان میں وسطیٰ پنجاب، جنوبی پنجاب اور سندھ کے میدانی علاقے MAJOR FAULT LINE پر نہیں ہیں۔

پنچاب اور سندھ کے ریگستانی علاقے تھل، چولستان اور تھر زلزلوں سے محفوظ ہیں۔ اس لحاظ سے ’’جوہرآباد کا علاقہ‘‘ زلزلوں کے حوالے سے محفوظ ترین ہے۔ پنجاب اور سندھ کے ریگستانی علاقے تھل، چولستان، تھر کے صحرا اور ان کے ملحقہ علاقے کو بہت حد تک زلزلوں سے محفوظ شمار کیا جا رہا ہے۔

زلزلے دو قسم کے ہوتے ہیں، ایک تھرسٹ اور دوسرے آتش فشانی زلزلے۔ تھرسٹ زلزلے وہ ہیں جو پلیٹوں کے رگڑ نے سے آتے ہیں۔ آتش فشانی زلزلے زمین کے اندر سے لاوا اگلنے کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔

آتش فشانی زلزلوں کا مرکز زمین میں کافی گہرا ہوتا ہے۔ ان زلزلوں کی شدت ریکٹر اسکیل پر تھرسٹ زلزلوں کی نسبت کم ہوتی ہے۔ آتش فشاں زلزلوں سے جو لاوا نکلتا ہے اس سے محدود علاقے میں ہی نقصان ہوتا ہے۔

ان زلزلوں کی شدت تھرسٹ زلزلوں سے کم ہوتی ہے۔ اب تک آتش فشاں زلزلوں کی زیادہ سے زیادہ شد ت ریکٹر اسکیل پر 6.6 ریکارڈ کی گئی ہے جب کہ تھرسٹ زلزلوں کی شدت بہت زیادہ ہوتی ہے اور تھرسٹ زلزلوں کے اثرات کا دائرہ سیکڑوں کلومیٹر تک ہوتا ہے۔

ماہرین ارضیات نے زمین کی بناوٹ اور زلزلوں کی آمد کے حوالے سے جو بھی سائنسی تحقیق کی اور اندازے لگائے ہیں اس کے با وجود دنیا بھر کے سائنس دان اس پر متفق ہیں کہ زلزلوں کی وجوہات طے کرنے کے باوجود یہ قیاس آرائی یا پیش گوئی نہیں کی جا سکتی کہ زلزلے کب، کہاں اور کس وقت آئیں گے۔ یہ علم صرف اللہ تعالیٰ کی قارد مطلق ذات ہی کو ہے کہ زلزلہ کب، کس وقت اور کہاں آئے گا۔

Similar Posts