یہ سوال نیا نہیں، یہ اس دن سے پیدا ہوا جب ایک شخص نے اپنی ایجاد کے نتائج دیکھ کر اپنی روح پر بوجھ محسوس کیا اور ضمیر کے بوجھ سے خود کو آزاد کرنے کے لیے اپنی دولت سے انسانیت کے نام ایک عہد لکھا۔ وہ شخص تھا الفریڈ نوبل، ڈائنامائٹ کا موجد۔
کہا جاتا ہے کہ ایک صبح اُس نے اخبار میں اپنی غلطی سے شایع ہونے والی موت کی خبر پڑھی۔ سرخی تھی موت کا سوداگر مرگیا۔ یہ جملہ بجلی بن کر اُس کے دل پر گرا، اُس نے اپنی ایجاد کو دنیا کے لیے خیر سمجھا تھا مگر دنیا نے اسے تباہی اور قتل کے آلے میں بدل دیا۔
اسی لمحے اس کے اندر ایک نیا انسان جاگا جس نے سوچا کہ اگر میرے نام کے ساتھ تباہی جڑی ہے تو میں اسے انسانیت کے ساتھ جوڑ دوں۔ یہی وہ لمحہ تھا جب نوبل انعام کی بنیاد رکھی گئی مگر افسوس کہ وقت کے ساتھ اس خواب کی روشنی بھی سیاست کی گرد میں مدھم ہوگئی۔
آج نوبل انعام کا نام سنتے ہی ہمارے ذہن میں عزت وقار اور عظمت کے تصورات آتے ہیں مگر اس کے پیچھے ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ انعامات ہمیشہ اُس نظام کا چہرہ ہوتا ہے جو انھیں دیتا ہے۔ اگر سماج انصاف، برابری اور سچائی پر قائم ہو تو انعام عزت کا باعث ہوتے ہیں لیکن اگر سماج جھوٹ، جبر اور منافقت پر کھڑا ہو تو وہی انعام ظلم کی مہر بن جاتے ہیں۔
نوبل انعام بھی اس حقیقت سے مبرا نہیں۔ ایک طرف یہ انعام اُن لوگوں کو ملا جنھوں نے انسانیت کے لیے راستے روشن کیے مگر دوسری طرف اُن لوگوں کو بھی دیا گیا جن کے ہاتھ خون سے رنگے ہوئے تھے۔
ویتنام کی جنگ کے بعد جب ہنری کسنجرکو امن کا نوبل انعام دیا گیا تو دنیا بھر کے اہلِ ضمیر نے حیرت اور غصے کے ساتھ کہا کہ شاید اب امن کا مطلب بدل گیا ہے۔
اسی طرح جب بارک اوباما کو عراق اور افغانستان پر بمباری کے دوران امن کا انعام دیا گیا تو خود کئی نوبل یافتگان نے کہا کہ یہ انعام اب ضمیر کے بجائے سیاست کی تائید بن چکا ہے۔
دنیا کے بڑے انعامات جب طاقتور ہاتھوں میں آ جاتے ہیں تو وہ ضمیر کے بجائے طاقت کی علامت بن جاتے ہیں۔ وہ کسی سچ کو نہیں بلکہ کسی سیاسی توازن کو سراہنے لگتے ہیں۔
تاریخ کے صفحات پلٹیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ انعام دینے والے اکثر وہی ہیں جو سچ سے خوف زدہ ہوتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اختلاف کو قابو میں رکھا جائے، بغاوت کو نرمی میں لپیٹ دیا جائے تاکہ کوئی آواز بلند نہ ہو۔
اسی لیے سرمایہ دار دنیا کے انعامات اکثر منظور شدہ اختلاف کی محفوظ صورت بن جاتے ہیں۔ یہ وہ انعامات ہیں جو ایک خاص دائرے میں رہ کر تنقید کرنے والوں کو نوازتے ہیں تاکہ اصل نظام پر کوئی سوال نہ اُٹھے۔
پاکستان میں بھی انعامات کی کہانی کچھ مختلف نہیں۔ یہاں بھی اکثر تمغے اور اعزاز ضمیرکی قیمت پر ملتے ہیں۔ جو سچ بولتا ہے اُس کی کتابیں بند کردی جاتی ہیں، اس کے لیے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں، مگر جو طاقتوروں کی تعریف میں قلم اٹھاتا ہے اُسے تمغہ امتیاز اور قومی ایوارڈ مل جاتے ہیں۔ یہ سماج کی وہ تلخ حقیقت ہے جس میں انعام عزت نہیں بلکہ اطاعت کا نشان بن جاتا ہے۔ فیض صاحب نے کیا خوب کہا تھا:
نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اُٹھا کے چلے
آج یہی رسم انعامات کے نام پر جاری ہے۔ یہاں ہر وہ شخص قابلِ تحسین ہے جو طاقت کے ساتھ کھڑا ہے اور ہر وہ شخص مشکوک ہے جو حق کے ساتھ۔انعام کا اصل مطلب تو یہ ہے کہ سماج اُس شخص کو سراہتا ہے جس نے انسانیت کے لیے کچھ کیا ہو مگر جب سماج خود ہی ناانصافی پر قائم ہو تو انعام دراصل اس ناانصافی کی حفاظت بن جاتا ہے۔
نوبل انعام کا تقدس اسی وقت برقرار رہ سکتا ہے، جب یہ انعام واقعی انسانیت کے مفاد میں دیا جائے نہ کہ ان عالمی قوتوں کے لیے جو انسان کو منڈی کا سامان سمجھتی ہیں۔کیا گلیلیو کوکوئی انعام ملا تھا؟ نہیں مگر اُس کی سچائی نے صدیوں بعد سائنس کو نئی راہ دی۔
کیا منصور حلاج کو کسی نے سراہا تھا؟ نہیں مگر اُس کی صدا انا الحق آج بھی انسان کی آزادی کی علامت ہے۔ کیا کارل مارکس نے کوئی انعام پایا؟ نہیں مگر اُس کی فکر نے دنیا کے اقتصادی اور طبقاتی نظام کو بدلنے کی بنیاد رکھی۔ اصل انعام وہ ہوتا ہے جو عوام دیتے ہیں نہ کہ وہ جو طاقتور ادارے بانٹتے ہیں۔
آج نوبل انعامات کی فہرست دیکھ کر ایک خلش سی محسوس ہوتی ہے۔ امن کے نعرے لگانے والے وہی لوگ ہیں جو مظلوم قوموں پر بم گراتے ہیں۔ انصاف کی بات کرنے والے وہ ہیں جن کے کارپوریٹ ادارے دنیا کے غریب ترین مزدوروں کا خون چوستے ہیں، اگرکسی شاعر کو امن کا انعام دیا جائے مگر وہ فلسطین یمن کے انسانوں کے حق میں ایک لفظ نہ بولے تو یہ انعام نہیں خاموشی کا معاہدہ ہے اور خاموشی ہمیشہ ظلم کا ساتھ دیتی ہے۔
دنیا کے سب سے بڑے ایوارڈز بھی اُس سکون کے آگے بے معنی ہیں جو ضمیر کے ساتھ سچ بولنے پر ملتا ہے۔ وہ استاد جو تنخواہ کے بغیر بھی بچوں کو پڑھاتا ہے، وہ صحافی جو خطرہ مول لے کر سچ لکھتا ہے، وہ مزدور جو ناانصافی کے خلاف آواز بلند کرتا ہے وہی اصل انعام یافتہ لوگ ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں کوئی تمغہ نہیں مگر ان کے سینے میں وہ دل ہے جو انسانیت کے لیے دھڑکتا ہے۔
نوبل انعام کے شور میں دنیا اکثر اُن گمنام انسانوں کو بھول جاتی ہے جنھوں نے کسی تقریب میں شرکت نہیں کی مگر اپنے لہو سے تاریخ لکھی۔ وہ کسان جو زمین کے حق میں جان دیتا ہے، وہ نرس جو وبا کے دنوں میں اپنی جان خطرے میں ڈال کر دوسروں کو بچاتی ہے، وہ شاعر جو جیل کی دیواروں میں بیٹھ کر بھی محبت کے نغمے لکھتا ہے، یہی اصل انعام یافتہ لوگ ہیں۔ وہ جو کسی گولڈ میڈل کے محتاج نہیں بلکہ انسانیت کے قرض دار ہیں۔
الفریڈ نوبل نے ڈائنا مائٹ ایجاد کیا تھا مگر شاید اسے معلوم نہیں تھا کہ دنیا کے ضمیر کو بیدارکرنا اُس سے کہیں مشکل کام ہے۔ اُس نے ڈائنا مائٹ سے زمین ہلائی مگر آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ضمیر کی زمین ہلائیں، کیونکہ جب تک دنیا کے انعام طاقتورکے دروازے پر تقسیم ہوں گے کمزور کا درد کبھی قابلِ اعتراف نہیں بنے گا۔
نوبل انعام کا خواب اُس وقت پورا ہو گا جب امن کا نعرہ صرف تقریر نہیں بلکہ عمل بنے گا جب شاعر، سائنسدان، اور دانشور اپنی آواز مظلوم کے ساتھ جوڑیں گے نہ کہ اقتدار کے ساتھ۔
انعام کی اصل صورت وہ نہیں جو سونے کے فریم میں لٹکی ہو بلکہ وہ ہے جو دل میں روشنی بن جائے اور شاید ایک دن ایسا آئے گا جب نوبل کی تقریبات سے زیادہ احترام ان بے نام لوگوں کو حاصل ہوگا جنھوں نے کسی تخت پر بیٹھ کر نہیں بلکہ زمین پرکھڑے ہوکر انسانیت کی خدمت کی۔ تب دنیا واقعی سمجھ پائے گی کہ ضمیر کا انعام نوبل سے بڑا ہوتا ہے۔