قطر پر حملہ ایک رات کی سازش نہیں تھی۔ قطر پر حملہ دراصل تمام عرب ریاستوں کو یہ باورکروانا تھا کہ وہ اس بات کو تسلیم کر لیں کہ ان کا تحفظ اور سالمیت امریکا اور اسرائیل کے بغیر ممکن نہیں اور پھر سعودی عرب نے اپنے تحفظ کے لیے نیٹو طرزکا ایک معاہدہ پاکستان کے ساتھ جوڑ لیا۔
سعودی عرب نے ہندوستان کی طرف بھی دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا، اب وہ بھی کھٹائی میں پڑگیا ہے۔ غزہ کا معاہدہ کتنا ہی کمزور اور غیر مناسب سہی، لیکن اس وقت امن کی ضمانت ہے۔ اس معاہدے کے پس پردہ جو طاقت ہے، وہ ہے پوری دنیا کا اسرائیل کے ظالمانہ حملوں کے خلاف احتجاج، مظاہروں کی شدت۔
اسپین سے لے کر آسٹریلیا،کینیڈا اور پوری دنیا میں لاکھوں لوگوں کا اسرائیل کے خلاف سڑکوں پر نکلنا، اسرائیل نے کبھی یہ نہیں سوچا ہوگا کہ وہ دنیا کے فورم پر اس طرح سے تنہا رہ جائے گا۔ امریکا اور یورپ، اسرائیل کی پشت پناہی کرتے تھے مگر موجودہ منظر تبدیل ہوچکا ہے۔ غزہ پچھلے دو برس سے انٹرنیشنل میڈیا کی توجہ کا مرکز تھا، اب شاید ایسا نہ ہو۔ اب میڈیا کا فوکس غزہ سے ہٹ جائے گا۔
روس اور یوکرین کے مابین جو جنگ چل رہی ہے جس میں امریکا اور یورپی ممالک یوکرین کی طرف کھڑے ہیں جب کہ چین، ہندوستان، شمالی کوریا اور ایران روس کی طرف ہیں۔
صدر ٹرمپ کی حکمتِ عملی، عالمی ثالثی، پریشر ٹیکٹکس اور’’ کچھ لو اورکچھ دو‘‘ کی بنیاد پر اس تنازعے کو بھی امید کی جا سکتی ہے کہ ختم کیا جائے گا۔ دنیا کے غیر معمولی تنازعوں میں تیسرا تنازعہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ہے۔
ہندوستان اور پاکستان کی حالیہ جنگ میں پاکستان نے دنیا کو حیران کردیا، ہندوستان اور پاکستان دونوں ہی ایٹمی طاقت ہیں۔ اس بات کا خدشہ تھا کہ پاکستان کا چین سے قریب ہونا پاکستان کو امریکا اور ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے مشکل میں ڈال سکتا ہے مگر ایسا نہیں ہوا اور وہ اس لیے کہ ہندوستان، امریکا اور اتحادیوں کے ساتھ دوغلا پن کر رہا تھا ۔
ہندوستان اور پاکستان کے مابین جنگ چار دن رہی، جب حالات مزید بگڑ گئے تو امریکا نے تمام حسابوں کا پرچہ ہندوستان کو تھما دیا۔ امریکا نے ہندوستانی برآمدات پر ٹیرف کی شرح بڑھا دی۔ ہندوستان کے ہنر مندوں کے لیے ویزا کی مشکلات بڑھا دیں۔
ایران اور ہندوستان کے تعلقات بھی کھٹائی میں پڑگئے کیونکہ اسرائیل نے ایران پر حملہ کردیا۔ قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد، جو چار عرب ریاستیں ہندوستان کے قریب تھیں، ان کے تعلقات بھی کشیدہ ہوگئے۔ حالات نے کچھ ایسی کروٹ لی کہ روس کے ساتھ صرف ہندوستان کھڑا رہا اور روس اس کی وکالت کرتا رہا کہ ہندوستان اور چین کے تعلقات کو بہتر بنایا جائے، ہندوستان کو عالمی تنہائی سے باہر نکالا جائے۔
ہندوستان کے ساتھ حالیہ جنگ کے بعد پاکستان کا تاثر، دنیا پر ایسا بنا کہ پاکستان کی ہندوستان کو شکست، چین کی ٹیکنالوجی کی بنیادوں پر ہے اور یہ حقیقت بھی ہے، مگر تاریخی اعتبار سے پاکستان اور چین کے تعلقات ہمیشہ دوستانہ رہے ہیں اور ساتھ ہی پاکستان نے امریکا سے بھی اپنے تعلقات بہتر رکھے۔
پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں دراڑیں افغانستان کی وجہ سے پڑیں ۔ افغانستان میں اشرف غنی اور حامد کرزئی کے دورِ حکومت میں جو بھی دہشت گردی کے واقعات ہوئے، اس کا الزام پاکستان پر لادا جا تا تھا جب کہ طالبان بھی پاکستان کو نقصان پہنچا رہے تھے۔
پاکستان کی ساخت اور سالمیت کو نقصان پہنچانے کے لیے ہندوستان نے بڑی تیزی سے افغانستان میں اپنا جال بچھایا۔ افغانستان کے اندر دونوں نظریے پاکستان مخالف ہیں، جب کابل پر دوبارہ طالبان قابض ہوئے، ہم نے جشن منایا، وہ ہماری غلطی تھی۔ اسرائیل، ہندوستان اور امریکا میں زلمے خلیل زاد جیسی سوچ یہ تھی، پاکستان کو معاشی اور ریاستی اعتبار اس قدرکمزور بنایا جائے کہ پاکستان اپنی ایٹمی طاقت سے دستبردار ہوجائے۔
طالبان کو پاکستان میں بسایا لایا جا رہا تھا، ڈالرکی اونچی اڑان تھی، افراطِ زر 30% کے لگ بھگ پہنچ چکی تھی۔ گندم، آٹا، چینی، گھی، دالیں، گوشت پاکستان سے افغانستان بھیجا جارہا تھا۔ پشاور میں ڈالر مارکیٹ قائم کرکے افغانستان کی طالبان حکومت کو فنانشنل لائف لائن فراہم کی گئی اور پاکستان سے ڈالر افغانستان جاتا رہا، پاکستان دیوالیہ ہونے جا رہا تھا۔
عدالتیں ایسے فیصلے سنا رہی تھیں جس میں آئین وہ خود تحریر کر رہے تھے۔ پھر نو مئی کا واقعہ رونما ہوا۔ ٹرمپ کے دورِ حکومت میں پاکستان کو مزا چکھانے کی دھمکیاں ملیں۔ پھر ایسا بھی ہوا کہ مصر میں پاکستان نے امریکا کے ساتھ ایک اہم کانفرنس میں شرکت کی جہاں غزہ میں جنگ بندی کا فیصلہ ہوا۔
پاکستان کے اس اقدام پر شاید چین خوش نہ ہو لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کے دوستوں کو پاکستان کی مجبوریوں کو سمجھنا ہوگا۔ پاکستان کا امریکا سے قریب ہونا ملکی ضرورت کا تقاضہ تھا، ہم امریکا کے ٹریڈ پارٹنر ہیں۔ ہم آئی ایم ایف کے مقروض ہیں، بیرونی قرضہ ہماری مجبوری ہے۔
تاریخی اعتبار سے افغانستان کا علاقہ، ایک ہزار سال سے برصغیر جنگ میں ملوث رہا ہے۔ غزنوی، غوری، خاندان غلاماں، بابر اسی علاقے سے گزر کر آئے، پھر نادر شاہ اور احمد شاہ ابدالی بھی پہلے اس علاقے پر قابض ہوئے اور پھر ہندوستان کی مغل سلطنت کے خاتمے کا باعث بنے۔
یہ حملہ آوروں ہمارے سابقہ قبائلی علاقوں میں موجودہ مختلف دروں سے گزر کر پشاور، کوہاٹ، سوات کو تاراج کرتے ، پھر اٹک ، راولپنڈی، لاہور سے گزر پانی پت جاتے، اگر دوسرا راستہ اختیار کیا جاتا تو جنوبی وزیرستان اور ڈیرہ اسماعیل خان ان غیرملکی لشکروں کا نشانہ بنتے، یہاں سے ملتان کو لوٹا جاتا اور پھر آگے سومنات تک جایا جاتا تھا۔
پانچ یا چھ سو سال بعد بلآخر رنجیت سنگھ کا جنم ہوا۔ پنجاب جو مسلسل حملہ آوروں کی گزرگاہ تھی، دلی بھی پنجاب تھا، پانی پت بھی اور جنگی ہنر پنجاب کو وراثت میں ملا تھا۔ پنجاب میں صدیوں کی جنگ وجدل اور خون خرابے نے اس خطے کو حوصلے ، جرات اور صدمے برداشت کرنے اور گر کر اٹھنے اور لڑنے کی ہمت اور قوت سے نواز دیا۔
1590 میں اکبر بادشاہ نے سندھ کو ہندوستان کے ساتھ ملحق کیا۔ اس سے پہلے ایک صدی سے زیادہ تک، ٹھٹہ پر ارغونوں اور ترخانوں نے حکومت کی جو اس وقت سندھ کا دار الخلافہ تھا۔ جب ڈیڑھ سو سال بعد نادر شاہ نے دلی پر حملہ کیا تو سندھ کے بادشاہ نور محمد کلہوڑو کے ولی عہد بیٹے غلام شاہ کلہوڑو کو مغوی بنایا اور تاوان وصول کرتے رہے۔
رنجیت سنگھ کے زمانے میں پنجاب بہت مضبوط ہوا ۔ انگریزوں نے پورے ہندوستان کی آرمی کا ہیڈ کوارٹر یہاں بنایا کیونکہ آرمی میں سکھوں اورپنجاب کے مسلمان فوجیوں کی تعداد زیادہ تھی۔1855 میں انگریزکابل تک پہنچا۔
افغانستان نے جو جنگ نیٹو اور روس سے جیتی وہ پاکستان کے بغیر ناممکن تھی۔ افغانستان کی معیشت کا انحصار پاکستان پر ہے، وہ اسلحہ بیچتے ہیں، منشیات کا کاروبارکرتے ہیں اور ہرقسم کی اسمگلنگ کرتے ہیں۔ وہاں انکم ٹیکس ہے، نہ جی ایس ٹی اور نہ کوئی ایکسائز ڈیوٹی، کسٹمز ڈیوٹی و ٹیرف ہے نہ دولت ٹیکس ہے۔
سب کا دھن سفیدہے اور کالا بھی ہے۔ پھر مذہب کا کارڈ ان کے ہاتھ میں ہے ۔ افغانستان میں عورتوں کے حقوق کی پامالی کا ریکارڈ بھی موجود ہے، پاکستان میں افغانستان کی بلیک اکانونی سے جڑے لوگ بھی منشیات فروشی، گاڑیوں اورپٹرول کی اسمگلنگ کا کاروبار کرتے ہیں۔
ان کو پاکستان میں قوانین اور آئین کی پابندی اچھی نہیں لگتی، ایسا پاکستان ان کو اپنا نہیں لگتا ۔ یہ پاکستان ہمیں جنرل ضیاء الحق نے تحفے میں دیا تھا۔ تمام شرفاء جو مختلف سیاسی پارٹیوں میں ہیں، اسی کا تسلسل ہیں۔