امریکی میڈیا کے مطابق ملک بھر میں 2700 سے زائد مقامات پر احتجاجی مظاہرے کیے گئے جن میں لاکھوں افراد کی شرکت ہوئی۔ نیویارک، واشنگٹن، شکاگو اور لاس اینجلس سمیت تمام بڑے شہروں میں عوام سڑکوں پر نکل آئے۔
مظاہرین کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد میڈیا پر دباؤ، سیاسی مخالفین کے خلاف مقدمات اور امیگریشن کے سخت اقدامات بڑھ گئے ہیں۔ کئی شہروں میں نیشنل گارڈ کے دستے تعینات ہیں۔
احتجاج کے دوران شرکا نے ’ڈونلڈ ٹرمپ ہیز ٹو گو‘ جیسے نعرے لگائے اور جمہوریت کے تحفظ کا عزم ظاہر کیا۔ کچھ مظاہروں میں ٹرمپ کے غبارے نما پتلے بھی فضا میں اُڑائے گئے۔
امریکی حکومت تین ہفتوں سے جزوی طور پر بند (شٹ ڈاؤن) ہے، جس کے باعث ہزاروں سرکاری ملازمین برطرف ہوچکے ہیں۔
صدر ٹرمپ نے ان مظاہروں پر محتاط ردِعمل دیا، مگر ریپبلکن رہنماؤں نے مظاہرین کو ’’مارکسسٹ‘‘، ’’اینٹیفا‘‘ اور ’’ڈیموکریٹک دہشت گرد ونگ‘‘ قرار دیا۔
دوسری جانب ڈیموکریٹ رہنماؤں، بشمول سینیٹر برنی سینڈرز اور چَک شومر، نے مظاہروں کی حمایت کی اور شہریوں کو آزادیِ اظہار کا حق استعمال کرنے پر سراہا۔
’نو کنگز‘ تحریک کو 300 سے زائد تنظیموں کی حمایت حاصل ہے، جن کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد جمہوری اقدار اور شہری آزادیوں کا تحفظ ہے۔
غیر ملکی شہروں لندن، میڈرڈ اور مالمو میں بھی یکجہتی کے طور پر مظاہرے کیے گئے۔