غزہ میں ایک بار پھر اسرائیلی جارحیت نے تباہی مچا دی ہے۔ یرغمالیوں کی واپسی کے بعد اسرائیل نے حماس کے مبینہ اہداف پر سو سے زائد راکٹ حملے کیے جن کی اسرائیلی فوج نے تصدیق بھی کردی ہے۔ ان حملوں کے نتیجے میں مزید چوالیس فلسطینی شہید اور متعدد زخمی ہوگئے۔
غزہ کے شہریوں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی طیاروں نے نصیرات، جمالیہ اور رفح کے رہائشی علاقوں کو نشانہ بنایا جہاں گھروں اور عمارتوں کے ملبے تلے کئی خاندان دب گئے۔
اسرائیلی حکام نے حماس پر جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی اور جنوبی غزہ میں دو اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکت کا الزام لگاتے ہوئے بمباری کو ’’جوابی کارروائی‘‘ قرار دیا ہے۔
دوسری جانب حماس نے یہ الزامات مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیلی فوج خود رفح کے بڑے حصے پر قابض ہے اور مارچ سے تمام مزاحمتی گروہوں سے رابطے منقطع ہیں۔ حماس کے مطابق اسرائیل اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے جھوٹے الزامات گھڑ رہا ہے۔
ادھر اسرائیل نے غزہ تک امداد کی فراہمی بھی مکمل طور پر روک دی ہے جس سے محصور علاقے میں انسانی بحران مزید سنگین ہوگیا ہے۔ اسپتالوں میں ایندھن اور ادویات کی قلت بڑھ رہی ہے جبکہ سیکڑوں بے گھر خاندان کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
امریکی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ واشنگٹن نے اسرائیل کو حماس کے خلاف ”متناسب جواب“ دینے کی اجازت دے دی ہے۔ رپورٹ کے مطابق امریکا اسرائیل کی عسکری کارروائیوں کو ”دفاعی اقدام“ قرار دے رہا ہے۔
دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے طیارے میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ”ہاں، غزہ میں جنگ بندی اب بھی نافذ العمل ہے“۔ ان کے اس بیان نے عالمی حلقوں میں مزید الجھن پیدا کردی ہے کیونکہ اسی وقت اسرائیل کی بمباری سے درجنوں فلسطینی مارے جا رہے تھے۔