قریہ سیدہ حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا

دنیا کے نقشے پر کچھ خطے وہ ہیں جنہیں تاریخ سنوارتی ہے،کچھ وہ ہیں جنہیں جغرافیہ نمایاں کرتا ہے، کچھ وہ ہیں جن کی پہچان اقوام سے ہوتی ہے اور کچھ وہ ہیں جنہیں محبتِ رسولؐ ہمیشہ کے لئے زندہ و جاوید کر دیتی ہے۔

جنوبِ مشرقی طائف کے پہاڑوں کے دامن میں واقع” سرآ بنی سعد “قریہ حلیمہ السعدیہ” بھی انہی روحانی خطوں میں سے ایک ہے، جہاں زمین نے وہ منظر دیکھا جس نے پوری انسانیت کی تقدیر بدل دی۔ یہ وہ مقام ہے جہاں آسمانِ نبوت کے ستارے پہلی بار چمکے،جہاں سیدہ حلیمہ سعدیہ کے آنگن میں وہ نور اترا جس نے عالم کو روشن کر دیا۔اس برکت سے یہ بستی تاریخ کے صفحات میں ہمیشہ کیلئے زندہ وجاوید ہوگئی۔ آج اس بستی کا ذرہ ذرہ مسلمانوں کیلئے یادگار اور مقدس و محترم ہے۔

یہ یقینا میری خوش قسمت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے سیدہ حلیمہ سعدیہ کی بستی کی زیارت کا موقع دیا۔ وہ راستے ، وہ گزرگاہیں جہاں رسول مقبولؐ بکریاں چرایا کرتے تھے۔ ان گزر گاہوں کی مٹی بھی ہماری آنکھوں کا سرمہ ہے۔ساخت کے اعتبار سے یہ علاقہ کوئی زرخیز نہیں۔ پہاڑوں پر کھیتی باڑی بھی زیادہ نہیں ہے۔ پہاڑی وادیوں اور نشیب میں کہیں کہیں تھوڑی سی جگہ پر زراعت ہو سکتی ہے۔ یہا ں خاردار جھاڑیاں بھی کم ہی ہیں۔

لوگوں کا ذریعہ معاش اونٹوں اور بکریوں سے ہونے والی آمدنی ہے۔ وہ ان کا دودھ پیتے، ان کی کھال سے فائدہ اٹھاتے اور کبھی کبھار ذبح کر کے ان کا گوشت کھاتے ہیں۔ اگر قسمت ساتھ دے اور بارش ہو جائے تو کچھ کھیتی باڑی کی صورت نکل آ تی ہے جس سے گیہوں کی فصل ہو جاتی ہے۔ بنو سعد کے علاقے میں قبیلہ سعد بن ابی بکر دور دور تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ خاندان اصل میں بنو ہوازن ہی کی شاخ ہے۔

قریہ سیدہ حلیمہ سعدیہ سڑک کے راستے مکہ سے 160 کلومیٹر اور طائف سے 70کلو میٹرکے فاصلہ پر ہے۔ شقصان سے شوحطہ تک کچا راستہ 15 سے 20 کلومیٹر تو ضرور ہوگا۔ یہاں کا موسم اور آب و ہوا نہایت صحت افزا ہے۔ یہ کوئی بڑی وادی نہیں ہے تاہم چھوٹی بھی نہیں۔ یہاں ابر رحمت چھایا رہتا ہے اور ہر طرف نہایت ہی سکون و اطمینان کی فضا ہے۔یہ وادی 15 سے 20 ایکڑ تو ہوگی۔ حضرت سیدہ حلیمہ کے گاوں کے حالات اب وہ نہیں رہے جو کبھی تھے۔ اس واقعہ کو قریباََ1500 سال گزر چکے ہیں۔ پتھروں کے نشانات ہیں اور چھوٹی چھوٹی چار دیواریاں ہیں۔

تاریخ میں قریہ حلیمہ السعدیہ کو صدیوں سے مختلف ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔اس بستی کا ایک نام’’ قریہ القنین ‘‘ ہے۔ اس کا مطلب ہے ایسی بلند پہاڑی بستی جو بادلوں کو چھو لیتی ہے۔ یہ بستی چونکہ بلندی پر واقع ہے اسلئے اسے’’ قریہ القنین ‘‘ کہا گیا ہے۔ اس وادی کا دوسرا نام “قریہ الشوحط ہے۔ یعنی ایسی وادی جہاں وادی شوحط کے درختوں سے تیر و کمان تیار کیے جاتے تھے۔

اس وادی کا تیسرا نام “قریہ الحدبی ہے۔یعنی ایسی وادی جو بلندی و رفعت کی علامت ہے۔اس وادی کا چوتھا نام “قریہ الدہاسین” ہے یعنی ایک ایسا نام جو عاجزی، نرمی اور خلوص کی علامت بن گیا۔”الدہاسین” دراصل “آل عجاز” سے ماخوذ ہے، جس کا مفہوم بظاہر عجز ہے،لیکن درحقیقت یہ وقار، حلیمی اور انکسار کی تعبیر ہے۔

یہی وہ صفات ہیں جو قبیلہ سعد بن بکر کی پہچان بنیں اور انہی اوصاف نے قبیلہ سعد کو نبی کریمؐ کی رضاعت کے لیے منتخب کرایا۔ سیدہ حلیمہ سعدیہ بیان کرتی ہیں: “قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں حلیمہ کی جان ہے،جب دوسرے لوگ صبح اپنے جانور چرا کر شام کو لاغر واپس آتے جبکہ میری بکریاں پیٹ بھرے، دودھ سے بھری ہوئی لوٹتیں۔” یہ حلیمہ سعدیہ کی کرامت نہیں، بلکہ اللہ کی رحمت کا وہ سایہ تھا جو اس بستی پر ٹھنڈک اور رحمت بن کر نازل ہوا تھا جس میں نبیِ آخرالزماںؐ پرورش پا رہے تھے۔سیرت نگار بتاتے ہیں کہ سیدہ حلیمہ سعدیہ کی جھونپڑی میں جو روشنی اْتری وہ پوری دنیا کے افق کو منور کر گئی۔اس مقدس قریہ کے گھر کی دیواروں نے وحی سے پہلے کے لمحوں کا سکوت سنااور ان کے صحن نے پہلی بار محمدِ عربیؐ کے مسکراتے لبوں کا عکس دیکھا۔

 شوحط کے درخت اور “البیضاء کی خوشبو اس بستی کی پہچان وہی پہاڑی درخت ہیں جنھیں “الشوحط” کہا جاتا ہے۔ انہی درختوں سے وہ کمان “البیضاء ” تیار کی گئی تھی جو سپہ سالار اعظم رسول معظمؐ کے پاس تھی۔ ابن سید الناسؒ روایت کرتے ہیں کہ نبیؐ کے پاس پانچ کمانیں تھیں، ان میں سے ایک کمان “البیضاء ” قریہ حلیمہ سعیدیہ کے درخت شوحط کی لکڑی سے بنی تھی۔یوں یہ بستی نہ صرف رضاعت کا مقام بنی بلکہ نبوی یادوں اور جہادی یلغاروں کی وادی بھی بن گئی۔

فصاحتِ بنی سعد اور زبانِ نبوت

قبیلہ بنی سعد فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے پورے عرب میں ممتاز تھا۔

یہی وہ قبیلہ تھا جس کی زبان، لہجہ اور بیان کی صفائی نے نبی کریمؐ کی گفتگو کو ایک اعجازِ بیان بنا دیا۔

عرب کہا کرتے تھے: “سب سے زیادہ فصیح لوگ سرآ کے ہیں، اور فصاحت کی اصل زمین سرآ ہی ہے۔”نبی کریمؐ کی زبانِ مبارک میں وہی روانی، وہی صفا اور وہی نور بولتا تھا جو بنی سعد کے لہجے سے پھوٹتا تھا۔

 قریہ حلیمہ : تاریخ کا مقدس باب

یہی وہ مقام ہے جہاں:

 1 -نبی کریمؐ نے سیدہ حلیمہ کے زیرِ سایہ بچپن گزارا۔

2۔فرشتوں سے پہلا روحانی سامنا ہوا۔

3 ۔تاریخِ انسانیت کا پہلا “شق الصدر” واقعہ پیش آیا۔

 4۔ اسی مقام پر “مہرِ نبوت” ثبت ہوئی۔

 احادیث میں شق صدر کی یہ تفصیل بیان کی جاتی ہے کہ ایک دن آپ گھر سے قدرے دور بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے کہ جبرائیل علیہ السلام نے آپ کو پکڑ کر زمین پر لٹادیا۔ سینہ چاک کر کے دل نکالااور اس میں سے خون کا ایک لوتھڑانکال کر فرمایا: یہ تم سے شیطان کا حصہ تھا۔ پھر دل کو ایک تشت میں زمزم کے پانی سے دھویا اور پھر اسے واپس اسی جگہ پر جوڑ دیا۔ ادھر بچے دوڑ کر اپنی والدہ سیدہ حلیمہ کے پاس پہنچے اور کہنے لگے: محمد کو قتل کر دیا گیا ہے۔گھر والے بھاگم بھاگ وہاں پہنچے تو دیکھا کہ آپ کا رنگ اترا ہوا تھا۔ سید نا مالک بن مالک رضی اللہ عنہ جو اس حدیث کے راوی ہیں، فرماتے ہیں : میں سلائی کے نشانات آپؐ کے سینہ مبارک پر دیکھا کرتا تھا۔

یہ سب واقعات اس بات کی شہادت ہیں کہ قریہ حلیمہ السعدیہ دراصل نبوت کی پہلی درسگاہ تھی۔

مساجدِ قدیمہ اور ایمان کی روشنی

پانچویں ہجری میں جب قبیلہ سعد بن بکر کے لوگ مدینہ حاضر ہو کر نبی کریمؐ کے دستِ مبارک پر اسلام لائے، تو واپسی پر انہوں نے اپنے علاقوں میں مساجدِ ایمان تعمیر کیں۔

انہی میں سے ایک “مسجدِ حلیمہ” تھی جسے علامہ حمد الجاسر نے اپنی تحقیق میں ایک قدیم اور مقدس مسجد قرار دیا۔یہ مسجد آج بھی اس بستی کی روحانی علامت ہے۔

وقت گزر گیا، تاریخ کے اوراق پلٹتے گئے،

مگر قریہ حلیمہ کی خوشبو آج بھی تازہ ہے۔

اسی قدیم بستی کے عہد حاضر کے ایک فرزندِ فخر، عبداللہ بن محمد الذویبی ہیں جو سعودی عرب کے نامور صحافی، محقق اور سیاحتی رہنما کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے اپنی تحقیق، تحریر اور جذبہ خدمت کے ذریعے قریہ حلیمہ السعدیہ کو عالمی نقشے پر دوبارہ زندہ کر دیا ہے۔عبداللہ بن محمد میرے ذاتی دوست ہیں ان سے جب ملاقات ہوتی ہے تو ایمان تازہ ہوتا ہے اور معلومات میں اضافہ ہوتا ہے۔ وہ نہ صرف حجاج و معتمرین کو اس تاریخی خطے کے بارے میں آگاہ کرتے ہیں بلکہ اس بات کو یقین بنائے ہوئے ہیں کہ ہر وہ قدم جو نبیؐ کے بچپن کے نقوش پر چلے وہ دراصل محبتِ رسولؐ کا زائر ہے۔ عبداللہ الذویبی کا یہ جملہ مشہور ہے: “قریہ حلیمہ کوئی ویران وادی نہیں، یہ محبت کا وہ مدرسہ ہے

جہاں آسمان نے پہلی بار نبی ؐ کے مسکراتے ہونٹ دیکھے۔”عبداللہ الذویبی کی سیاحتی خدمات اور صحافتی شعور نے اس خطے کے آثارِ نبویہ کو اجاگر کیا ہے۔ وہ آج بھی اپنے قلم سے قریہ کے پہاڑوں، چشموں، درختوں اور فضاؤں کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ قریہ حلیمہ السعدیہ صرف جغرافیائی مقام نہیں، یہ محبت ِ رسولؐکی علامت ہے۔ یہ وہ زمین ہے جس پر نبیؐ کے قدموں کی خوشبو رچی ہوئی ہے،یہ وہ فضا ہے جس میں پہلی بار آغوشِ حلیمہ میں نبوت کے خواب بولے تھے۔جب بھی اس بستی کا نام لیا جاتا ہے تو دل کی دھڑکنوں میں محبتِ رسولؐ پھواریں پھوٹنے لگتی ہیں۔

یہ وادی ہمیں یاد دلاتی ہے۔۔۔۔: ادبِ رسولؐ ، محبتِ رسولؐ ور نسبتِ رسولؐ ہی اصل ایمان کی روح ہیں۔

سرآ بنی سعد کی یہ بستی آج بھی دنیا کے لیے ایک پیغام ہے کہ جو قوم اپنے ماضی کے مقدس مقامات کی حفاظت کرتی ہے وہی اپنی روحانی شناخت کو زندہ رکھتی ہے۔ قریہ حلیمہ السعدیہ کی خاک میں وہ برکت ہے جو محبت، فصاحت، کرامت اور نبوت کے انمول امتزاج سے بنی ہے اور جب عبداللہ بن محمد الذویبی جیسے فرزندِ قریہ اس دھرتی کے تاریخی ورثے کو دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیںتو یوں محسوس ہوتا ہے کہ سرآ کے پہاڑ آج بھی نبی ؐ کے بچپن کی مسکراہٹ کے امین ہیں۔ یہ بستی زمین پر نہیں دلوں میں بسی ہے۔ اور جو دل محمدِ عربی ؐ سے محبت کرتا ہے، وہی قریہ حلیمہ کی خوشبو سے مہکتا رہتا ہے۔

Similar Posts