آئن اسٹائن اور ملیوا ماریچ

بیسویں صدی کے عظیم ترین سائنسی دماغ ڈاکٹر البرٹ آئن اسٹائن کا نام دنیا میں ریاضی اور طبیعات کی عظمت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔

اس نے کائنات کی ساخت کو سمجھنے کے لیے ایسے اصول اور نظریات دیے جنہوں نے جدید سائنس کی بنیادیں بدل ڈالیں۔ لیکن اس عظیم شخصیت کی نجی زندگی بھی اتنی ہی پیچیدہ اور متنازع ہے جتنی اس کی سائنسی دریافتیں۔ خاص طور پر اس کی پہلی بیوی ملیوا ماریچ کی کہانی ایک ایسا باب ہے جسے اکثر نظرانداز کیا گیا۔ یہ وہ عورت تھی جس نے اپنی ذہانت، قربانی اور محنت کے باوجود تاریخ کے دھندلکوں میں اپنا نام کھو دیا، حالاںکہ کئی ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر ملیوا نہ ہوتی تو شاید آئن اسٹائن کی شہرت بھی اس طرح نہ بنتی۔

آج البرٹ آئن اسٹائن کا نام تو ہر خاص و عام نے سنا ہے، لیکن ان کی پہلی بیوی ملیوا ماریچ کی شخصیت اور ان کے ممکنہ سائنسی تعاون کی داستان زیادہ تر تاریخی صفحات میں ہی دب کر رہ گئی ہے۔

یہ محض ایک رومانوی کہانی نہیں، بلکہ ایک ایسی ذہین خاتون کی تکلیف دہ داستان ہے جس نے اپنے کیریر کی قربانی دے کر آئن سٹائن کی کام یابیوں میں ناقابل فراموش تعاون دیا، مگر آخرکار گم نامی اور تنہائی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئی۔ یہاں ان دونوں کے تعلق کے مختلف پہلوؤں کو معتبر ذرائع کی روشنی میں پیش کیا گیا ہے۔

ملیوا ماریچ: ایک غیرمعمولی ذہین اور پختہ عزم رکھنے والی خاتون، ابتدائی زندگی اور تعلیمی سفر:ملیوا ماریچ اگست 1875 میں سربیا کے ایک امیر خاندان میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد اپنے علاقے کے معزز اور مال دار شخص تھے۔ ابتدائی تعلیم میں ہی ان کی غیرمعمولی ذہانت کے جوہر کھل کر سامنے آئے۔ ایک لڑکی ہونے کے باوجود، انہوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا عزم کرلیا، جو اس دور میں لڑکیوں کے لیے آسان نہیں تھا۔

زیورخ میں واقع سوئس فیڈرل انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ETH) میں داخلہ لینا ان کا خواب تھا، لیکن اس وقت یہ ادارہ صرف لڑکوں کے لیے تھا۔ ملیوا کے والد نے اس رکاوٹ کو دور کرنے کے لیے محکمۂ تعلیم سے خصوصی اجازت حاصل کی، جس کے تحت انہیں زیورخ میں فزکس کے لیکچرز لینے کی اجازت مل گئی۔ یہ اس دور میں لڑکیوں کے لیے تعلیمی میدان میں ایک بڑی کام یابی تھی۔

شخصیت اور صلاحیتیں: ملیوا کے ہم جماعت انہیں نہایت ذہین اور کم گو لڑکی کے طور پر بیان کرتے تھے۔ وہ چیزوں کی گہرائی تک پہنچنے کی دل دادہ تھیں اور انہیں لیب ورک اور تجربات میں خاصی مہارت حاصل تھی۔ ان کی منظم طبیعت اور سائنسی صلاحیتیں بعد میں آئن اسٹائن کی بے ترتیب زندگی کو سنوارنے میں معاون ثابت ہوئیں۔

البرٹ آئن اسٹائن: ایک باغی اور غیرروایتی طالب علم، ابتدائی سال: البرٹ آئن اسٹائن 14 مارچ 1879 کو جرمنی کے شہر اولم میں پیدا ہوا۔ اس کے والد ہرمین آئن اسٹائن ایک صنعت کار تھے جب کہ اس کی ماں پالین کوش ایک زمیںدار کی بیٹی تھی۔ آئن اسٹائن شروع سے ہی متجسس اور باغی طبیعت کا مالک تھا۔

اس کی باغیانہ طبیعت اور ڈسپلن نہ ہونے کی وجہ سے وہ جرمنی میں اپنی ہائی اسکول کی تعلیم مکمل نہ کر سکا اور آخرکار اس نے سوئٹزرلینڈ جا کر اپنی تعلیم مکمل کی۔ اکتوبر 1895 میں اس نے زیورخ میں واقع ETH کا داخلہ امتحان دیا مگر ناکام رہا۔ اگلے سال اس نے آراو کے اسکول میں پڑھائی کی اور پھر ETH کا داخلہ امتحان پاس کرلیا۔

یونیورسٹی کی زندگی: آئن اسٹائن کو ETH کے شعبہ فزکس اور ریاضی میں داخلہ ملا۔ وہ یونیورسٹی میں کم لیکچرز لیتا تھا اور اپنا زیادہ تر وقت گھر پر پڑھائی میں صرف کرتا تھا۔ اس کا رجحان خود مطالعے کی طرف زیادہ تھا اور وہ رسمی تعلیم کے بجائے اپنے طریقے سے علم حاصل کرنا پسند کرتا تھا۔

تعلیمی دور میں ملاقات اور ابھرتا ہوا رشتہ: ملیوا اور آئن اسٹائن کی ملاقات ETH میں ہوئی، جو ان چند خواتین میں سے تھی جنہیں اس ادارے میں تعلیم حاصل کرنے کی اجازت تھی۔ دونوں میں قربت بڑھتی گئی اور وہ نہ صرف ذاتی بلکہ سائنسی معاملات میں بھی ایک دوسرے کے ساتھی بن گئے۔

تعلیمی کارکردگی کا موازنہ: 1900 میں کلاسز کے اختتام پر جب نتائج آئے تو ملیوا کے گریڈ 4.7 اور آئن اسٹائن کے 4.6 آئے۔ صرف اپلائیڈ فزکس میں ملیوا کو 5 جب کہ آئن اسٹائن کو صرف 1 نمبر ملا۔ یہ واضح کرتا ہے کہ ملیوا لیب ورک اور تجربات میں آئن اسٹائن سے بہتر تھیں، جب کہ آئن اسٹائن کا رجحان نظریاتی پہلوؤں کی طرف زیادہ تھا۔

پہلا مشترکہ تحقیقی مقالہ: 13 دسمبر 1900 کو ان دونوں نے ایک ریسرچ آرٹیکل لکھا، لیکن اس پر صرف آئن اسٹائن کے دستخط تھے۔ اس بارے میں مورخین میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ کچھ کا خیال ہے کہ ملیوا آئن اسٹائن کا نام روشن دیکھنا چاہتی تھی، اس لیے اس نے صرف اس کے نام سے مقالہ شائع کروایا، جب کہ کچھ کا ماننا ہے کہ اس دور میں خواتین کے لیے سائنسی مقالوں میں شریک مصنف کے طور پر نام درج کروانا مشکل تھا۔

شادی سے پہلے کے بحرانی سال، غیرشادی شدہ حمل اور اس کے نتائج: 1901 میں آئن اسٹائن کے ایک خط سے پتا چلتا ہے کہ ریلیٹیویٹی کے نظریے میں ملیوا نے آئن اسٹائن کا خاطر خواہ ساتھ دیا تھا۔ مگر اس وقت تک ملیوا حاملہ ہوچکی تھیں اور آئن اسٹائن ابھی تک بے روزگار تھا۔ اس صورتحال میں ملیوا کو واپس اپنے والدین کے پاس جانا پڑا۔

آئن اسٹائن اس وقت شادی کے لیے تیار نہیں تھا، چناںچہ ملیوا نے اپنا تعلیمی کیریئر جاری رکھنے کی آخری کوشش کی اور ایک خط لکھا، مگر پروفیسر ویبر، جنہوں نے آئن اسٹائن کے کیرئیر میں رکاوٹیں کھڑی کی تھیں، نے اسے مسترد کردیا۔

گم شدہ بیٹی کا معما: 1902 میں ملیوا نے ایک لڑکی کو جنم دیا، لیکن اس لڑکی کا مستقبل ایک معما بن کر رہ گیا۔ تاریخی ریکارڈز میں اس بچی کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ کچھ مورخین کا خیال ہے کہ وہ بچپن میں ہی فوت ہوگئی، جبکہ کچھ کا ماننا ہے کہ اسے گود دے دیا گیا۔ اس سوال کا جواب شاید ہی کبھی مل سکے۔

شادی کے بعد کے سال: سائنسی تعاون کی عروج اور زوال بالآخر شادی: 1903 میں، جب ملیوا کے والد کا انتقال ہوچکا تھا اور آئن اسٹائن نے برن میں ایک پیٹنٹ آفس میں ملازمت حاصل کر لی تھی، دونوں نے بالآخر شادی کرلی۔ آئن اسٹائن ہفتے میں چھے دن آٹھ گھنٹے کام کرتا تھا، جب کہ ملیوا گھریلو کاموں میں مصروف ہو گئیں۔

میراکل ایئر (1905) میں ملیوا کا ممکنہ کردار: 1905 میں، جسے آئن اسٹائن کا ’’میریکل ایئر‘‘ کہا جاتا ہے، اس نے چار انقلابی مقالے شائع کیے، جن میں اضافیت کا خاص نظریہ اور E=mc² کا مساوات شامل تھے۔ اس دور میں ملیوا کے کردار پر مورخین میں اختلاف ہے:

· ملیوا کے بھائی کے مطابق، وہ دونوں راتوں کو مٹی کے تیل والے لیمپ کے نیچے بیٹھ کر اکٹھے کام کرتے، لکھتے، مسائل حل کرتے اور بحث کرتے تھے۔

· جب آئن اسٹائن بیمار ہوا تو ملیوا نے اس کے تمام پیپرز بار بار پڑھے اور انہیں پروف ریڈ کرکے اشاعت کے لیے بھجوایا۔

· ملیوا کے اپنے خطوط سے پتا چلتا ہے کہ وہ آئن اسٹائن کے سائنسی کاموں میں گہری دلچسپی لیتی تھیں اور ان پر ان سے تبادلہ خیال کرتی تھیں۔

جدول: ملیوا ماریچ کے آئن اسٹائن کے سائنسی کام میں ممکنہ شراکتوں کا خلاصہ

سائنسی کام ملیوا کے ممکنہ تعاون دست یاب شواہد: 1900 کا مقالہ مشترکہ طور پر تیار کیا گیا صرف آئن اسٹائن کے دستخط۔

خصوصی اضافیت (1905) ریاضیاتی حساب کتاب میں مدد ملیوا کے خطوط میں اشارے ، اور E=mc² تصور کی تیاری میں مباحثے آئن اسٹائن کے ساتھیوں کی گواہیاں۔

نیز براؤنی حرکت تجرباتی پہلوؤں پر مشاورت ملیوا کی تجرباتی مہارت۔

رشتے میں دراڑیں:1910 میں آئن اسٹائن کا دوسرا بیٹا پیدا ہوا، لیکن اسی دوران اس کی اپنی کزن ایلسا کے ساتھ معاشقہ چلنے لگا، جو بالآخر ان کی علیحدگی کی سب سے بڑی وجہ بنا۔ یہ معاشقہ آئن اسٹائن اور ملیوا کے درمیان تعلقات میں دراڑیں ڈالتا چلا گیا۔

علیحدگی، طلاق اور اس کے بعدطلاق کی شرائط: 1919 میں دونوں نے طلاق لے لی۔ ملیوا نے طلاق کے لیے اس شرط پر رضامندی ظاہر کی کہ مستقبل میں ملنے والے نوبیل انعام کی رقم وہ لے گی۔ اس وقت وہ کم سن بچوں کے ساتھ ایک اپارٹمنٹ میں رہ رہی تھیں اور ساری زندگی اسی حالت میں گزاری۔

نوبیل انعام کی رقم کا تنازعہ:1925 میں آئن اسٹائن نے اپنے انعام کی رقم اپنے بیٹوں کو دینے کی وصیت کردی، جس پر ملیوا کو بے حد اعتراض تھا۔ آخرکار آئن اسٹائن نے 1922 میں ملنے والا نوبل انعام کی رقم ملیوا کو دے دی، جس سے انہوں اور ان کے بیٹوں نے گزارہ کیا۔

ملیوا کی خاموشی اور مایوسی: ملیوا نے اپنے والدین اور گاڈ پیرنٹس کو لکھے گئے ایک خط میں بتایا تھا کہ کس طرح اس نے آئن اسٹائن کی مدد کی اور کس طرح آئن اسٹائن نے اس کی زندگی تباہ کی، لیکن بعد میں اس نے اس خط کو تلف کردیا۔ ان کے بیٹے کے مطابق، ان کی ماں کا آئن اسٹائن کی سائنسی تحقیق میں ’’اچھا خاصا حصہ‘‘ تھا۔

تاریخی تناظر میں ملیوا کے کردار کا جائزہ جدید تحقیق کی روشنی میں: حالیہ برسوں میں، مورخین اور سائنس دانوں نے ملیوا کے ممکنہ تعاون کو تسلیم کرنا شروع کیا ہے۔ اگرچہ کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں ہے کہ ملیوا نے آئن اسٹائن کے نظریات میں براہ راست شراکت کی، لیکن یہ بات واضح ہے کہ:

٭   وہ آئن سٹائن کی سائنسی سوچ کی ساتھی اور ناقد تھیں۔

٭   انہوں نے ریاضیاتی حساب کتاب میں اس کی مدد کی۔

٭   انہوں نے اس کے خیالات کو پرکھنے اور نکھارنے میں اہم کردار ادا کیا۔

٭   انہوں نے گھریلو ذمے داریاں سنبھال کر آئن سٹائن کے لیے سائنسی تحقیق کے لیے وقت مہیا کیا۔

صنفی مسائل اور سائنسی تاریخ: ملیوا کی کہانی انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے آغاز میں خواتین سائنس دانوں کے سامنے آنے والی چیلینجوں کو واضح کرتی ہے۔ اس دور میں خواتین کے لیے سائنسی میدان میں نام کمانا انتہائی مشکل تھا، اور اکثر ان کی شراکتیں ان کے مرد ساتھیوں کے سائے میں دب کر رہ جاتی تھیں۔

ایک پیچیدہ سائنسی رفاقت کا ورثہ: البرٹ آئن سٹائن اور ملیوا ماریچ کی کہانی محض ایک رومانوی المیہ نہیں، بلکہ سائنسی تعاون، قربانی اور تاریخی انصاف کے سوالات پر مبنی ایک پیچیدہ داستان ہے۔ اگرچہ ہم شاید یہ کبھی قطعی طور پر نہ جان سکیں کہ ملیوا نے آئن اسٹائن کے کام میں کتنا تعاون دیا، لیکن یہ واضح ہے کہ وہ محض ایک خاموش تماشائی نہیں تھیں۔

ان کی کہانی ہمیں سائنسی ایجادات کے پیچھے چھپی انسانی کہانیوں کو تسلیم کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔ ہر کام یاب سائنس داں کے پیچھے ایسے ہی متعدد افراد کا تعاون ہوتا ہے جن کے نام تاریخ کے صفحات میں گم ہوجاتے ہیں۔ ملیوا ماریچ انہی گمنام ہیروز میں سے ایک ہیں، جن کی قربانیوں اور تعاون نے بیسویں صدی کی سب سے بڑی سائنسی ذہانت کو پروان چڑھانے میں ناقابل فراموش کردار ادا کیا۔

آئن اسٹائن اور ملیوا کی کہانی محض ایک محبت یا ناکام شادی کی کہانی نہیں بلکہ اس میں بیسویں صدی کی سائنسی تاریخ کے کئی اہم سوال چھپے ہیں۔ کیا آئن اسٹائن اکیلا جینیئس تھا یا اس کی کام یابی کے پیچھے ایک ذہین مگر نظرانداز شدہ عورت کی قربانیاں بھی شامل تھیں؟ اس کا حتمی جواب شاید کبھی نہ مل سکے، لیکن یہ حقیقت طے ہے کہ ملیوا ماریچ کے بغیر آئن اسٹائن کی زندگی ادھوری تھی۔

یہ داستان ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ تاریخ اکثر بڑے ناموں کو یاد رکھتی ہے مگر ان کے ساتھ چلنے والے اور ان کی بنیادیں مستحکم کرنے والے کردار وقت کے دھندلکوں میں کھوجاتے ہیں۔ اگر ملیوا کو وہی مواقع ملتے جو مرد سائنسدانوں کو دیے جاتے تو شاید آج دنیا اسے بھی ایک عظیم سائنس داں کے طور پر پہچانتی۔

آج، ہم جب آئن سٹائن کے نام کو عزت سے یاد کرتے ہیں، تو مناسب ہے کہ ہم ان خواتین کو بھی خراج تحسین پیش کریں جنہوں نے اس کی کام یابی کے راستے ہم وار کیے اور ان میں ملیوا ماریچ کا نام سب سے اوپر ہے۔ ملیوا ہی وہ عورت تھی جس نے باغی آئن اسٹائن کو منظم کیا اور فزکس کی تاریخ تک بدل دینے میں ساتھ دیا۔

Similar Posts