رفتہ رفتہ دونوں جانب کی برادریوں نے اسے اپنی اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا۔ ایک دن غیرت کی آگ میں جلتے ایک جھتے کو اپنی برادری کا گناہ گار جمالو شیدی کہیں مل گیا اور آپس میں لڑائی شروع ہوگئی۔ لڑتے لڑتے ایک نوجوان جمالو شیدی کے ہاتھوں زخمی ہوگیا، جس کا خون دیکھ کر جھتے کے افراد فرار ہوگئے، جب قبیلے کے افراد دوبارہ واپس آئے تو زخمی مرچکا تھا اور جمالو شیدی نعش پر موجود ملا۔ انگریز سرکار نے اسے گرفتارکرلیا۔ گرفتاری کے بعد کمرہ عدالت میں جمالو شیدی نے تمام حقیقت من و عن بیان کردی۔
دوران لڑائی اپنے ہاتھوں کیے گئے قتل کو قبول کر لیا۔ عدالت نے تمام حالات و واقعات اور شواہد کو مد نظر رکھتے ہوئے جمالو شیدی کو سزائے موت کا حکم سنایا۔ جمالو شیدی کو سزائے موت کا حکم سنائے ہوئے چند ہی دن گزرے ہوں گے کہ انگریز سرکار نے موجودہ سکھر والے پل کی تعمیرکرنے کا فیصلہ کیا اور تمام سزا یافتہ مجرموں کی سزاؤں کو منسوخ کردیا۔ سکھر جیل میں موجود سب قیدیوں کو بطور مزدور پل کی تعمیرات کے کام میں لگا دیا گیا۔ سندھ کی اس عالی شان پل کی بدو لت جمالو کو کچھ دن اور زندگی کے مل گئے۔
جب پل کی تعمیر پایہ تکمیل تک پہنچی تو آزمائشی ریلوے انجن چلانے کا مرحلہ سامنے آگیا، تو انگریز سرکار نے اپنا مشکل ترین مرحلہ حل کرنے کے لیے جمالو شیدی سے یہ حلفیہ کہا کہ اس آزمائش کے دوران خدانخواستہ تم مرجاتے ہو تو یہ تیری سزائے موت کا حصہ ہوگا اور اگر بچ جاتے ہو تو پل سے انجن کے ساتویں چکر کے بعد تمہاری تمام سزا بخش دی جائے گی اور انعامات سے الگ نوازا جائے گا۔ روتے ہوئے بزرگوارکہتے تھے کہ جب اللہ کرم کرے تو بندہ ملک الموت کے ہاتھوں سے بھی بچ نکلتا ہے۔
پس یہی صورت حال جمالو شیدی کے ساتھ بھی پیش آئی۔ ان شرائط کو تسلیم کرنے کے بعد وہ تو اپنے کام میں دوبارہ مصروف ہوگیا، الغرض جمالوکے لیے یہ زندگی اور موت کا کھیل تھا اور تماشائیوں کے لیے ایک تماشا۔ ایک جم غفیر یہ دیکھنے کے لیے جمع تھا۔ آخرکار مقررہ وقت پر ٹرین کی انجن گاڑی پہلی بار سندھ سکھر پل کی جانب جمالو لے کر جا رہا تھا۔ جم غفیر تعجب کی نگاہوں سے ایک نتائج کا منتظر تھا، تو دوسری طرف اس کے اپنے جمالوکی زندگی کے لیے بارگاہ خداوند میں طالب دعا تھے۔ بالآخر سات مرتبہ آمد و رفت کے بعد یہ تجسس اور زندگی و موت کا کھیل اختتام پذیر ہوا۔
اپنوں نے شکر خدا ادا کیا۔ انگریز سرکار کامیابی کی خوشی و مسرت میں وعدے کے مطابق جمالو شیدی کو زندگی کا پروانہ سپرد کیا گیا تو روتے ہوئے شیدیوں کے چہروں پر رونق لوٹ آئی اور اپنی قدیمی انداز شادمانی میں جب جمالو کو آزاد آتے ہوئے دیکھا تو بولے۔
ھو جمالو۔ یعنی وہ ہے جمالو۔
سندھ جو جمالو۔ یعنی دھرتی سندھ کا جمالو۔
جیکوکثی آیو خیر سان۔ یعنی۔ جو جیت کر آیا ہے خیر و عافیت ہے۔
جنھن جا وار پیر پنج سیر اللہ۔ یعنی۔ جس کو اللہ تعالیٰ نے پانچ کلو کے پیر دیے ہیں۔ جنھن جا وارگھندی دار اللہ۔ یعنی جس کے بال اللہ تعالیٰ نے گھنگریالے بنائے ہیں۔ جنھن کی ساؤ لکن ھت ما۔ یعنی جس کے ہاتھ میں زندگی کا پروانہ ہے۔ جنھن جون اکیون رب رکیون اللہ۔ یعنی جس کی آنکھوں کو پروردگار نے بند ہونے نہیں دیے۔
( بحوالہ۔ ’’ شیدی باد شاہ، ایک تاریخ ساز حقیقت۔ تالیف۔ استاد شیدی محمد یعقوب قمبران)
اس طرح ایک طرف یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ ھوجمالو۔گیت کی شکل میں ایک دعا ہے تو دوسری طرف جمال الدین جمالو شیدی کے واقعے کا پس منظر بھی بیان کرتا ہے۔
مصنف اس تحریرکے ساتھ یہ بھی لکھتا ہے کہ افسوس صد افسوس جس سندھ سکھر کے حقیقی واقعے سے موجودہ سندھی ادیب اور ادب بالکل ہی ناخواندہ ہے۔ یہ ایک ہی نہیں سندھ کے بہت سے واقعات اور ہیروز سینہ بہ سینہ دم توڑگئے ہیں یا ضعیف و اضافی قرار دے کر تسلیم کرنے سے ہی انکارکردیا جاتا ہے۔ باقی خود ساختہ شخصیات و واقعات سے کتابیں لبریز ہیں، جن کا نہ حقیقت سے ہی کوئی تعلق ہے اور نہ ہی منطقی فائدہ ہے۔
کتاب۔ شیدی بادشاہ، ایک تاریخ ساز حقیقت۔ شیدی قوم کی خواب کی تعبیر ہے، جس میں تحقیق و جستجو کرنے والوں کے لیے خزانہ موجود ہے۔ یہ کتاب پاکستان شیدی اتحاد کا تاریخی کارنامہ ہے جس کے دامن میں شیدی سیاہ فام تاریخ سے متعلق بہت کچھ مواد موجود ہے۔
دنیاوی نامساعد حالات اور عمومی ناخوشگوار ماحول کے باوجود بھی شیدی قوم کے بھائیوں کو اپنی پہچان، تہذیب و تمدن، مہمان نوازی، وفاداری اور محبت کے حسن و اخلاص میں اللہ تعالیٰ نے ان کو چراغ روشن کی طرح لازوال اور باکمال رکھا ہے۔ دوسروں کے لیے محبت و انسیت شیدی قوم میں بتدریج پائی جاتی ہے۔
شیدی کون ہیں؟ عام آدمی توکیا۔ بہت سے مشہور تاریخ دان بھی کچھ نہیں جانتے۔ یہ وہ بتا سکتا ہے جو خود شیدی ہو یا اس کے بارے میں ٹھوس معلومات رکھتا ہو۔ شیدی قوم کی تاریخ جاننے کے لیے اس کتاب کا مطالعہ کرنا چاہیے جو کہ مستند کتاب ہے۔