یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کراچی کے اکثر بڑے چوراہوں پر پرندوں سے بھرے پنجرے لیے چڑی مار کھڑے ہوتے ہیں۔خداترس لوگ ثواب کی خاطر چڑی ماروں کو یہ پرندے آزاد کرنے کے لیے ہزار دو ہزار روپے دیتے ہیں۔چڑی مار انھیں آزاد کر دیتا ہے اور گزشتہ روز اسی جگہ پرندوں سے بھرا پنجرہ لیے کسی اور ثواب کے متلاشی متمول کا منتظر ہوتا ہے۔
اسرائیل کے سزا یافتہ قیدیوں میں سب سے نمایاں نام مروان برغوتی کا ہے۔ انھیں سول نافرمانی کی تحریک انتفادہ کے دوسرے باب ( دو ہزار تا دو ہزار پانچ ) میں پانچ اسرائیلی باشندوں کی ہلاکت کی سازش کے الزام میں بیک وقت پانچ بار عمرقید سنائی گئی۔یعنی وہ تا عمر جیل میں رہیں گے۔
حماس نے جنوری میں اور اب جن فلسطینی قیدیوں کی فہرست پیش کی اس میں مروان برغوتی کا نام شامل تھا اور دونوں بار اسرائیل نے ان کی رہائی کا امکان مسترد کر دیا۔وجہ بہت سامنے کی ہے۔
مروان برغوتی کو نئی نسل فلسطینی نیلسن منڈیلا سمجھتی ہے۔ واحد رہنما ہیں جو فلسطینیوں کی اکثریت کو متحد کر سکتے ہیں۔ ان کی رہائی سے جتنا خطرہ محمود عباس کی تابعدار فلسطینی اتھارٹی کو ہے اس سے کہیں زیادہ خطرہ متشدد اسرائیلی قیادت کو ہے۔آخر نیتن یاہو کیوں مروان کو رہا کر کے اس دو ریاستی حل کے فارمولے کو آکسیجن دے گا جنھیں وہ مردہ خانے میں دیکھنا چاہتا ہے۔
گذرے دو برس میں مروان کو تین بار جیل میں شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔گزشتہ ماہ ان پر اتنا تشدد ہوا کہ ان کے بیٹے اور بھائی کے بقول تین پسلیاں ٹوٹ گئیں۔یہ تشدد اسرائیلی وزیرِ سلامتی بن گویر کے دورے کے بعد ہوا۔وہ مروان برغوتی کی کوٹھڑی میں بھی گئے ، ان پر طنزیہ فقرے کسے اور ایک الیکٹرک چئیر کی تصویر دکھاتے ہوئے کہا کہ تمہارا انجام یہ ہے۔کوٹھڑی کی دیوار پر غزہ کی تباہی کی ایک تصویر بھی لگا دی گئی۔
حماس کی فہرست کے مطابق رہائی پانے والے دو ہزار فلسطینی قیدیوں میں سے عمر قید بھگتنے والے ایک سو ستائیس قیدیوں سمیت ایک سو ستاون وہ ہیں جنھیں اسرائیل نے جیل سے گھر بھیجنے کے بجائے سیدھا جلاوطن کر دیا۔ فلسطینی کنبوں کو خبردار کیا گیا کہ رہائی کی خوشی منانے والوں کو بھی زنداں میں ڈال دیا جائے گا۔
حماس نے تمام اسرائیلی یرغمالی رہا کر دیے ہیں۔ جو یرغمالی بمباری ، ناکافی خوراک یا بیماری سے مر گئے ان میں سے اکثر کی لاشیں بھی اسرائیل کے حوالے کر دی گئیں۔اسرائیل نے ڈی این اے ٹیسٹ کر کے ان لاشوں کی شناخت کی۔
اس کے برعکس فلسطینیوں کو جو ایک سو سے زائد لاشیں وصول پائی ہیں۔ان کی شناخت کے لیے غزہ میں ڈی این اے ٹیسٹ کی سہولت ہی نہیں۔چنانچہ ورثا کی تلاش میں سنگین مشکلات درپیش ہیں۔لاشوں پر صرف نمبروں کے ٹیگ لگے ہوئے ہیں۔اسرائیل نے ناموں کی مصدقہ فہرست بھی فراہم نہیں کی۔
فورنزک سہولتیں نہ ہونے کے سبب لاشوں کی تصاویر گردش کر رہی ہیں اگر کوئی پہچان کے وصول کر لے۔ان لاشوں پر تشدد کے نشانات ہیں۔کئی کے اعضا مسخ ہو چکے ہیں۔کسی کی کھال جگہ جگہ سے جلی یا ادھڑی ہوئی ہے۔کچھ کی آنکھوں سے پٹی تک نہیں اتاری گئی۔بہت سوں کے ہاتھ پشت کی جانب ہتھکڑی سے بندھے ہوئے ہیں۔ایک لاش کے نہ صرف ہاتھ بندھے ہیں بلکہ گلے میں رسی بھی ہے۔سرد خانے میں طویل عرصہ رکھنے کے سبب کھال کی ماہیت بھی تبدیل ہو چکی ہے۔اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ دو برس کے دوران اسرائیلی جیلوں میں لگ بھگ اسی قیدیوں کی ٹارچر کے سبب موت ہوئی ہے۔
اب تک جو قیدی زندہ رہا کیے گئے ان میں سے ہر کوئی ایک الگ کہانی ہے۔کسی کا ہاتھ تو کسی کی ٹانگ کٹی ہوئی ہے۔کسی کی آنکھیں ضایع ہو گئیں۔سب کے سب نہانے کی سہولت نہ ہونے کے سبب جلدی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ طبی سہولتوں تک جان بوجھ کے رسائی نہیں دی گئی۔
کچھ قیدی آہنی اوزاروں سے ریپ کیے گئے۔جنوبی اسرائیل کے صحرا میں قائم سدی تمیم کے عقوبت کیمپ میں ایک قیدی کے اجتماعی ریپ کی تو وڈیو بھی کئی ماہ پہلے وائرل ہوئی۔ مغربی میڈیا ، وائٹ ہاؤس اور وائٹ ہال تک شاید نہیں پہنچی۔
واپس آنے والے کچھ قیدیوں نے دماغی توازن کھو دیا۔کئی قیدیوں سے جھوٹ بولا گیا کہ تمہارے سب گھر والے بمباری میں مر چکے ہیں۔ان میں سے بہت سوں کو رہائی کے بعد یہ خوشخبری ملی کہ اہلِ خانہ زندہ ہیں یا صرف چند بمباری یا بھوک سے جاں بحق ہوئے ہیں۔ایک قیدی کمال ابوشناب نے بتایا کہ حراست میں لیے جاتے وقت اس کا وزن ایک ستائیس کیلوگرام تھا۔ اب اڑسٹھ کیلوگرام رھ گیا ہے۔ایک قیدی سالم عید زندگی بھر کروٹ نہیں لے سکے گا کیونکہ جسمانی تشدد سے ریڑھ کی ہڈی شدید متاثر ہوئی ہے۔
حالانکہ یہ سب گواہیاں جنگی جرائم کے پلندے میں مزید مستند شہادتوں کا اضافہ ہیں مگر اسرائیل اس پلندے کو جوتے کی نوک پر رکھتا ہے۔جو کہانیاں لاشیں بتا رہی ہے یا جو داستانیں زندہ رہا جانے والے قیدی سنا رہے ہیں ان کا مختصر ترین خلاصہ یہ ہے کہ آزادی اور حق مانگو گے تو ہم یہ حشر کریں گے۔ہمارا کچھ بگاڑ سکتے ہو تو بگاڑ لو۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)