عالمی عدالتِ انصاف (آئی سی جے) نے بدھ کو کہا ہے کہ اسرائیل پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ غزہ میں عام شہریوں کی بنیادی ضروریات فراہم کرے۔
برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق 11 ججوں پر مشتمل عالمی عدالتی بینچ نے قرار دیا کہ اسرائیل کو اقوامِ متحدہ اور اس کی متعلقہ ایجنسیوں کی جانب سے فراہم کی جانے والی امدادی سرگرمیوں میں تعاون کرنا لازم ہے۔
عدالت نے یہ بھی کہا کہ اسرائیل کو غزہ میں اقوامِ متحدہ اور انروا کی امدادی کوششوں کی حمایت کرنی چاہیے۔
عالمی عدالت کے صدر یو جی ایواساوا نے اپنے بیان میں کہا کہ، ”ایک قابض طاقت کے طور پر اسرائیل پر لازم ہے کہ وہ مقامی آبادی کی بنیادی ضروریات کو یقینی بنائے۔“
عدالت کی یہ رائے اگرچہ قانونی اور سیاسی اہمیت رکھتی ہے، تاہم اس کی عمل درآمدی حیثیت لازمی نہیں کیونکہ عالمی عدالتِ انصاف کے پاس نفاذ کا اختیار نہیں ہے۔
یہ رائے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کی جانب سے دسمبر 2024 میں طلب کی گئی تھی، تاکہ اس بات کی وضاحت کی جا سکے کہ رکن ممالک پر اقوامِ متحدہ کے عملے کے تحفظ اور امدادی کارروائیوں میں ان کی ذمہ داریاں کیا ہیں۔
دوسری جانب اسرائیل کی وزارتِ خارجہ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر جاری ایک بیان میں عالمی عدالت کی اس دریافت کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے بیان میں کہا کہ، “اسرائیل بین الاقوامی قانون کے تحت اپنی تمام ذمہ داریوں پر مکمل عمل کرتا ہے اور عدالتی رائے کو تسلیم نہیں کرتا۔”
وزارتِ خارجہ نے بدھ کے روز ایک مرتبہ پھر یہی مؤقف دہرایا کہ یو این آر ڈبلیو اے میں دہشت گرد عناصر سرایت کیے ہوئے ہیں”، اور اسرائیل “ایسے کسی ادارے سے تعاون نہیں کرے گا جو دہشت گردی میں ملوث ہو۔”

اسرائیل نے گزشتہ برس یو این آر ڈبلیو اے کی غزہ میں سرگرمیوں پر پابندی عائد کر دی تھی۔ اسرائیل کا دعویٰ تھا کہ اس ادارے کے بعض ملازمین حماس یا اس سے منسلک تنظیموں کے رکن ہیں۔
تاہم عالمی عدالتِ انصاف کے ججوں نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اسرائیل اپنے دعووں کے ثبوت فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے کہ یو این آر ڈبلیو اے کے نمایاں تعداد میں ملازمین حماس سے وابستہ ہیں۔
رواں برس اپریل 2025 میں اقوامِ متحدہ کے وکلاء اور فلسطینی نمائندوں نے عدالت میں موقف اختیار کیا تھا کہ اسرائیل نے مارچ سے مئی کے درمیان غزہ میں امداد داخل ہونے سے روک کر بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کی۔
اس کے بعد کچھ حد تک امدادی سامان کو داخل ہونے کی اجازت دی گئی تھی، تاہم اقوامِ متحدہ کے حکام کے مطابق یہ امداد غزہ کے عوام کے لیے ناکافی تھی۔
اس ماہ کے آغاز میں امریکا کی ثالثی میں طے پانے والے 20 نکاتی جنگ بندی منصوبے کے تحت روزانہ 600 ٹرک امدادی سامان غزہ میں داخل ہونے کی اجازت دی گئی تھی۔
تاہم اسرائیل کا الزام ہے کہ حماس امدادی سامان چوری کرتی ہے، تاہم تنظیم اس دعوے کی تردید کرچکی ہے۔ اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ امداد پر پابندیاں دباؤ ڈالنے کی حکمتِ عملی کا حصہ تھیں۔