ایران کے سابق سیکیورٹی چیف اور سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے مشیر علی شمخانی کی بیٹی کی شادی کی ویڈیو لیک ہونے کے بعد ملک میں سخت گیر اور اصلاح پسند حلقوں کے درمیان نیا سیاسی طوفان کھڑا ہو گیا ہے۔
حالیہ ہفتوں میں سوشل میڈیا پر پھیلنے والی ویڈیو میں علی شمخانی کی بیٹی اور اہلیہ کو مغربی طرز کے لباس میں دیکھا گیا، جب کہ تقریب میں شریک خواتین بھی بغیر حجاب کے موجود تھیں۔
ایک ایسے ملک میں جہاں اسلامی ضابطوں کی سختی سے پابندی کرائی جاتی ہے، اس ویڈیو نے عوامی حلقوں میں شدید ردِعمل پیدا کر دیا۔
ویڈیو کے منظرعام پر آتے ہی ایران میں بحث شروع ہو گئی کہ یہ نجی زندگی میں مداخلت ہے یا حکومتی اشرافیہ کے دوہرے معیار کا اظہار۔ تاہم معاملہ جلد ہی اخلاقی اور سماجی حدود سے نکل کر سیاسی الزامات اور جوابی بیانیوں تک پہنچ گیا۔
سابق سیکیورٹی چیف علی شمخانی نے اس پر ایک مبہم ردِعمل دیا۔ انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر عبرانی زبان میں لکھا: “میں ابھی زندہ ہوں” یہی جملہ انہوں نے اس وقت بھی استعمال کیا تھا جب رواں سال جون میں اسرائیلی حملے کے بعد ان کی موت کی افواہیں پھیل گئی تھیں۔
شمخانی کے پیغام کے فارسی اور عبرانی دونوں زبانوں میں لکھے جانے سے توجہ ویڈیو کے مواد سے ہٹ کر لیک کے پس منظر پر منتقل ہو گئی، جسے بعض حلقے غیر ملکی مداخلت قرار دے رہے ہیں۔
ایران کے سابق سرکاری نشریاتی ادارے کے سربراہ عزت اللہ ضرغامی نے اس واقعے کو اسرائیلی سائبر وار کا حصہ قرار دیتے ہوئے کہا: “لوگوں کی نجی زندگیوں میں ہیکنگ، اسرائیل کا نیا قتلِ کردار ہے۔ یہ نفسیاتی جنگ ہے جس کا مقصد ایرانی عوام کے حوصلے پست کرنا ہے۔”
کچھ سوشل میڈیا صارفین نے دعویٰ کیا کہ ویڈیو سب سے پہلے ایک عبرانی زبان کے ٹیلیگرام چینل پر سامنے آئی تھی، تاہم اس کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی۔
ایران کے سپریم لیڈر کے سیاسی مشیر علی شمخانی کی بیٹی کی شادی کی لیک ویڈیو پر عوامی تنقید کے بعد، ایران کے روزنامہ جوان (جو پاسدارانِ انقلاب سے منسلک ہے) نے شمخانی کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ لوگوں کو “نجی زندگی پر اخلاقی تنقید سے پرہیز کرنا چاہیے۔”
اخبار نے لکھا کہ یہ واقعہ خوش قسمتی سے ”شراب نوشی یا اخلاقی بدعنوانی سے خالی“ تھا اور تقریب میں شامل افراد کے مطابق شمخانی نے ”وقار اور شائستگی کے ساتھ“ رویہ اپنایا۔
جوان نے مہمانوں کو مورد الزام ٹھہرایا کہ انہوں نے ”دینی آداب کا خیال نہیں رکھا“ اور ویڈیو کو آن لائن شیئر کرنے والوں کی مذمت کی، ساتھ ہی اس کی تقسیم کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔
دوسری جانب، سپریم لیڈر کے دفتر کے زیرِ اثر سخت گیر اخبار کیہان نے براہِ راست الزام سابق صدر حسن روحانی اور سابق وزیرِ خارجہ محمد جواد ظریف پر عائد کیا، اسے “پراکسی کردار کشی” قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ افراد شمخانی کے اُس 2020 کے جوہری قانون کی حمایت پر ان سے خفا تھے جس سے مغرب کے ساتھ تعلقات مزید کشیدہ ہوئے۔
سخت گیر کارکن علی بیتافران نے بھی سماجی پلیٹ فارم پر لکھا کہ “شمخانی نے روحانی کو بے نقاب کیا، آشنا نے دھمکی دی، اور دو دن بعد مخالفین نے ویڈیو جاری کر دی۔” ان کے مطابق، یہ لیک “داخلی سازشی گروہ اور جلاوطن مخالفین” کے تعلق کو ظاہر کرتا ہے۔
سابق صدر روحانی کے قریبی ذرائع نے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ویڈیو لیک سے ان کا کوئی تعلق نہیں اور اسے “غیر اخلاقی اور اسلامی اصولوں کے منافی اقدام” قرار دیا۔
روحانی کے مشیر حسام الدین آشنا نے بھی ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ “خالی خولی تقسیم کے نعروں سے گریز کیا جائے۔” تاہم سخت گیر حلقوں نے ان کے پرانے بیان جس میں انہوں نے کہا تھا کہ “روحانی اور ظریف کو مجبور نہ کیا جائے کہ وہ سب کچھ بتا دیں” کو ان کی شمولیت کی علامت قرار دیا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق یہ واقعہ محض ایک شادی کی ویڈیو لیک نہیں بلکہ ایران کے اندر حکمرانی، مذہبی قوانین، عوامی توقعات اور سیاسی طاقت کے توازن کو چیلنج کرتا دکھائی دے رہا ہے۔
عوامی سطح پر جو غم و غصہ ہے، وہ “قوانین سب کے لیے برابر” کے اصول سے جڑا ہوا ہے اور سیاسی سطح پر یہ تنازع اندرونی دھڑوں کے مابین مزید تناؤ کو ظاہر کر رہا ہے۔