مہنگی روٹی، مہنگی تر بجلی اور مہنگے ترین ٹماٹر

راقم الحروف جس چھوٹی سی کالونی میں رہتا ہے، اِس کے عقب میں ایک چھوٹا سا بازار ہے ۔اِس بازار میں چھوٹے گوشت (Mutton)کی ایک بھی دکان نہیں ہے کہ اِس کالونی کے مکین مہنگا گوشت خریدنے کی سکت کم کم رکھتے ہیں۔یہاں بڑے گوشت (Beaf) کی ایک اچھی اور صاف ستھری دکان کھلی تو سہی ، مگر چند ماہ بعد یہ بھی بند ہو گئی کہ گاہک ہی نہیں تھے ۔مذکورہ کالونی میں البتہ مرغی کے گوشت (Chicken) کی دو دکانیں موجود ہیں اور چل بھی رہی ہیں ۔ وجہ شائد یہ ہے کہ مرغی کا گوشت MuttonاورBeafسے سستا ہے۔

ہماری اِسی کالونی کے بازار میں سبزیوں کی بھی دو دکانیں ہیں ۔ یہ کالم لکھنے سے دو گھنٹے قبل راقم اِن دونوں دکانوں پر خود گیا اور ٹماٹروں کا بھاؤ معلوم کیا۔ دونوں دکانداروں نے مجھے بتایا: 510روپے فی کلو بیچ رہے ہیں ۔سُن کر مگر کانوں سے دھواں نہیں نکلا کیونکہ گذشتہ چند دنوں سے ہم سب خبریں سُن اور پڑھ رہے ہیں کہ ٹماٹروں کی قیمتیں آسمان سے جا لگی ہیں ۔

لوگ اب کہتے ہیں کہ مرغی کا گوشت سستا ہے اور ٹماٹر مہنگے ترین ۔ لیکن سستی مرغی مہنگے ترین ٹماٹروں کے بغیر پکے تو کیسے پکے؟ ہر گھر میں خواتین غصے کے ساتھ یہی سوال پنجاب کی اولوالعزم خاتون وزیر اعلیٰ سے پوچھ رہی ہیں۔ خوشحال طبقے کے لیے مہنگے ٹماٹر کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ مرد حضرات بھی گھر کی خواتین کے سامنے شرمندہ ہو رہے ہیں کہ محدود سی تنخواہ میں 500روپے فی کلو ٹماٹر کیسے خرید کر لائیں ؟

عوام جو پہلے ہی مہنگی بجلی اور مسلسل مہنگی ہوتی گروسری کے ہاتھوں خود کشیاں کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں، مہنگے ترین ٹماٹروں نے مزید ستم ڈھا دیا ہے ۔ ستم یہ بھی ہے ہمارے مین اسٹریم میڈیا میں اِس موضوع پر کم ہی لب کشائی کی جارہی ہے ۔ نجی ٹی ویوں پر شام پڑتے ہی بڑے بڑے غیر ملکی مسائل پر باتوں کا ایک طومار اُمنڈ آتا ہے ۔ کوئی غزہ کے مسائل پر بات کرتا سنائی دیتا ہے تو کوئی شرم الشیخ (مصر) میں ہمارے کسی حکمران کی جانب سے کسی غیر ملکی حکمران کے لیے تعریفی کلمات کی تعریف و تحسین کرتا سنائی دیتا ہے ۔

کوئی ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے ہماری کسی طاقتور شخصیت بارے ادا کیے گئے تحسینی الفاظ کی گردان پڑھتا سنائی دیتا ہے۔ مہنگائی کی چکی میں ہر روز پِستی عوام کو بھلا ایران و توران کے مسائل سے کیا تعلق؟ وہ تو بیچارے اپنے روزہ مرہ کے کمر شکن مسائل و مصائب کا حل چاہتے ہیں، مگر کسی جانب سے کوئی ٹھنڈی ہوا آتی محسوس نہیں ہو رہی ہے۔ مین اسٹریم میڈیا پر بھی جب عوام کو درپیش سنگین اور ہلاکت خیز مسائل پر جرأت و ہمت سے بات ہوتی سنائی نہ دے تو عوام پھر کیوں اور کیونکر مین اسٹریم میڈیا (اخبارات و جملہ نجی ٹی وی) کی طرف توجہ دیں؟

مہنگے ترین ٹماٹروں پر مین اسٹریم میڈیا بارے اگر کوئی بات سنائی نہیں دے رہی تو سوشل میڈیا پر اِس نئے عذاب بارے حکمرانوں کو’’دعائیں‘‘ ضرور دی جارہی ہیں ۔ یہ ’’دعائیں‘‘ سُن اور دیکھ کر حکمرانوں کا پارہ ہائی ہوتا ہے ۔ اور وہ سوشل میڈیا کی بھی مشکیں کسنے اور اسے پابجولاں کرنے کی نت نئی تراکیب سوچتے رہتے ہیں ۔

البتہ عوام کے لیے یہ سوشل میڈیا ایک متبادل نعمت بنتا جا رہا ہے کہ یہ حکمرانوںکو آئینہ بھی دکھا رہا ہے اور عوام کا دل بھی پشوری کررہا ہے ۔شائد یہی وجہ ہے کہ وطنِ عزیز کے کئی نامور صحافی اور اینکر پرسنز یو ٹیوب کی دکانیں کھول بیٹھے ہیں ۔ جو بات وہ اپنے متعلقہ اخبار میں لکھ نہیں سکتے یا اپنے متعلقہ نجی ٹی وی پر بوجوہ بیان نہیں کر سکتے ، اپنے یُو ٹیوب پر بے دھڑک بیان کر دیتے ہیں ۔ اِسی دو رُخے کردار سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ملک کے اندر صحافیوں اور اینکروں کو بیک وقت کتنی زبانیں اختیار کرنا پڑ رہی ہیں ۔ یہ اسلوبِ حیات ہمارے مجموعی کردار کی چغلی بھی کھا رہا ہے ۔

ہم سب کھلی آنکھوں سے ملاحظہ کررہے ہیں کہ یہ سوشل میڈیا والے ہی ہیں جو کمر توڑ مہنگے ٹماٹروں بارے ذمے داران کی گوشمالی بھی کررہے ہیں ، ناجائز منافع کو بھی سامنے لا رہے ہیں اور حکمرانوں کی نااہلی بھی عیاں کررہے ہیں ۔ پنجاب میں ہم مگر یہ منظر دیکھ رہے ہیں کہ مہنگے ٹماٹر فروخت کرنے والوں پر کوئی ہاتھ نہیں ڈال رہا ۔ مہنگی روٹی بیچنے والوں کو البتہ گرفتار ضرور کیا جارہا ہے ۔

یہ بھی عجب تماشہ لگایا جارہا ہے ! جب مارکیٹ میں گندم اور آٹا مہنگا ملے گا تو نانبائی روٹی، نان اور پراٹھا کیسے اور کیونکر حکومتی جبر پر سستا بیچ سکیں گے؟ رواں برس پنجاب حکومت نے کسانوں اور زمین داروں سے بروقت گندم اچھے داموں نہ خرید کر جو ظلم کیا ، اُس کے نتائج اب سامنے آ رہے ہیں ۔ اب کسانوں کو درخواست کی جارہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ گندم کاشت کریں اور ہم اِس بار3500روپے فی من گندم اُٹھائیں گے۔اور جو کسان رواں برس گندم صرف2ہزار روپے فروخت کرنے پر مجبور ہُوئے اور اپنا دیوالیہ نکلوا بیٹھے ، وہ حکومتی وعدے پر بھلا کیسے اعتبار کریں گے؟

مہنگی بجلی ، مہنگی چینی ، مہنگے گھی ، مہنگی روٹی، مہنگے پٹرول وغیرہ کے بعد اب عوام کو مہنگے ترین ٹماٹروں کی ’’مار ‘‘ماری جارہی ہے ۔ ہر حکمران کے دَور میں جب بھی مہنگائی ہوتی ہے، بے حس حکمران طبقہ پولے منہ کے ساتھ یہ سفاک بیان دے دیتے ہیں: عوام فلاں چیز نہ کھائیں تو مر تو نہیں جائیں گے ۔ بانی پی ٹی آئی اور جنرل مشرف کے دَور میں بھی چینی اور آٹا مہنگا ہُوا تو حکم صادر ہُوا: عوام چینی نہ کھائیں ۔ مگر مہنگے آٹے کا کریں ؟ اِس بارے کوئی ارشادِ گرامی سامنے نہ آ سکا ۔

اب کہا جارہا ہے کہ مہنگے ٹماٹر ہانڈی میں نہ ڈالیں تو بھی سالن بن جاتا ہے ۔ خوب! یہ قیمتی مشورے دینے والے حکمران اور سرکاری مراعات یافتہ ملازمین البتہ اپنی مراعات اور بے تحاشہ سرکاری سہولتوں ، وظائف اور تنخواہوں میں کمی کرنے پر تیار نہیں ہیں ۔عوام کو مشورے دیے جاتے ہیں کہ وہ ’’قومی مفاد‘‘ میں اپنے پیٹ کاٹ پھینکیں۔ ستم ظریفی کی بات یہ بھی ہے کہ ملک بھر کے ہر گھر میں مہنگے ترین ٹماٹروں پر سینہ کوبی ہو رہی ہے اور حکمرانوں کی جانب سے عوام کو یہ بھی بتانے کا تکلّف نہیں کیا جارہا کہ اِس عذاب کی وجہ ہے کیا؟؟

سادہ سی بات تو بہرحال یہ ہے کہ جب منڈی میں ٹماٹروں کی کھیپ ہی کم آئیگی تو رسد اور مانگ میں جو توازن بگڑے گا، تو لا محالہ اس کے اثرات عام صارف تک بھی پہنچیں گے ۔ دکانداروں کو منڈی سے مہنگے ٹماٹر ملیں گے تو وہ صارفین کو کیسے سستے داموں فروخت کر سکیں گے؟ اِس وقت سرکار نے ٹماٹر کی قیمت فی کلو170 تا 180روپے مقرر کررکھی ہے ۔ دکاندار اِس قیمت پر ٹماٹر بیچنے پر تیار نہیں ہیں ۔

نتیجے میں جھگڑے بڑھ رہے ہیں ۔ لاہور اورراولپنڈی کی سبزی منڈیوں میں عام ایام میں روزانہ30ٹرک ٹماٹروںکے اُترتے تھے جس کی وجہ سے قیمتیں کنٹرول میں تھیں ۔ اور اب قیمتیں آؤٹ آف کنٹرول اس لیے ہُوئی ہیں کہ ٹماٹروں سے لدے مذکورہ ٹرکوں کی تعداد تقریباً40فیصد کم ہو گئی ہے ۔اِس کی ایک وجہ یہ ہے کہ پاک ، افغان تصادم کی وجہ سے پاک افغان ٹریڈ بند ہو چکی ہے ۔ اور جو ٹماٹر افغانستان سے آرہا تھا، مسدود ہو چکا ہے ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ خیبر پختونخوا کے وہ علاقے جہاں کے350ایکڑ سے زائد رقبے پر ٹماٹر کی فصل کاشت کی جاتی ہے ، اِس بار ٹماٹر کی فصل کو ایک پُر اسرار بیماری نے آ گھیرا ہے ۔

یہ بیماری ٹماٹر کے پودے کے پتوں پر حملہ آور ہوتی ہے ۔ اِس کے نتیجے میں پتّے خشک ہو کر پورے پودے کو بے ثمر کر نے کا سبب بن جاتے ہیں ۔ یوں ٹماٹروں کی فصل میں شدید زوال آیا ہے اور اِس کے اثرات ہر جانب محسوس کیے جارہے ہیں ۔ اگر مشرق میں سرحد کھلی ہوتی تو شائد بھارت ہی سے ٹماٹر درآمد کر لیے جاتے ، مگر یہ راستہ بھی مسدود ہے ۔ مشرق و مغرب کے سرحدی تصادموں میں پھنسے بیچارے غریب پاکستانی عوام جائیں تو جائیں کہاں؟؟

Similar Posts