اس وقت کے معاشی حالات اور اعداد و شمار جوکہ سیلاب میں ڈوبے ہوتے ہیں۔ 50 لاکھ آبادی سے زائد سیلاب متاثرین ہیں، لیکن حال کے بجائے مستقبل کا سوال تھا کہ پاکستان مستقبل کی معیشت کن اصولوں پر کھڑا کرنا چاہتا ہے۔ مالیاتی ادارے کے وفد نے ایک مسکراہٹ بکھیری اور کہا پاکستان استحکام کی راہ پر ہے، لیکن اس فقرے کے پیچھے بہت ہی ہولناک شرائط بھی تھیں یعنی ٹیکس بڑھانا ہوگا، توانائی کی قیمت درست کرنی ہوگی۔
گویا اصلاحات کی ندی میں اتر جائیں بغیر لائف جیکٹ کے۔ ڈالر کو قدرتی لہروں کے حوالے کر دو، ان کی محبوب کرنسی ہر حد، شرط اور پابندی سے پاک کردی جائے۔
مزدور کی مزدوری، کسان کے قرض، شہریوں پر قرض کا بوجھ مہنگائی کے بڑھتے رہنے پر دھیان نہیں دیا گیا کہ جب ڈالر کو آزاد چھوڑ دیں گے تو ایسی صورت میں ڈالر کو پَر لگ جائیں گے تو مہنگائی بھی مزید بڑھ جائے گی۔ ایک طرف بجلی، گیس کے بل ان میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، اگر ڈالر کو مارکیٹ کے حوالے کر دیا گیا تو اس سے پہلے بھی بارہا تجربے ہوتے رہے، پہلے آئی ایم ایف کا مطالبہ ہوتا تھا کہ روپے کی قدر 10 فی صد یا 12 فی صد گرا دی جائے یعنی ڈالر کی قیمت کو بڑھا دیا جائے ان دنوں یہ تاویل دی جاتی تھی کہ برآمدات میں اضافہ ہوگا۔
کسان سوچتا ہے کہ کھاد مہنگی ہوتی جا رہی ہے، پٹرول مہنگا ہو رہا ہے، بیج کی خبر نہیں اصلی ہے یا نقلی، پھر بھی مہنگا ترین۔ بجلی کے بل کے سلسلے میں عام شہری مزدور کسان دفتر کا بابو سب کے سامنے ایک ہی سوال ہوتا ہے کہ بجلی کے بل کیسے بھروں۔ لیکن ترقی پذیر ممالک کے افق پر بھی اسی قسم کے منظرنامے ہیں، جو بھی عالمی مالیاتی ادارے کا اسیر بن جاتا ہے، اس ملک کی کہانی پاکستان سے ملتی جلتی بن کر رہ جاتی ہے۔ تیسری دنیا یا ترقی پذیر ممالک میں ہر جگہ غربت ہے، ترقی کا نشان کم ہے قرض زیادہ، قرض اتارنے کی صلاحیت کم ہے۔
مشہور و معروف ماہرین معاشیات کا یہی خیال ہے کہ اصلاحات جب ہی کامیاب ہوتی ہیں جب غریبوں کو رعایت دی جائے نہ اعداد و شمار کو مدنظر رکھ کر۔ اس قسم کے معاہدے اصلاحات صرف انسانوں کے لیے ہوں نہ کہ اعداد و شمار کے کرتب دکھانے کے لیے، غربت مٹانے کے لیے ہوں۔ بھوک ختم کرنے کے لیے ہوں، ترقی کے سفر پرگامزن ہونے کے لیے ہوں نہ کہ آئی ایم ایف کی خوشنودی کے لیے۔ اگر سرکاری بدانتظامی، کرپشن، بجلی چوری، ذخیرہ اندوزی، اقربا پروری اور بہت سی برائیوں کا قلع قمع نہ کر پائے تو تمام اصلاحات کے نتیجے میں بے روزگاری آئے گی، غربت میں اضافہ ہوگا۔
حالیہ مذاکرات پر آئی ایم ایف پاکستان کی تعریف کرتا ہے کہ پاکستان کا پروگرام میکرو استحکام کے قیام اور مارکیٹ اعتماد بحال کرنے کی راہ پر ہے۔ حالیہ سیلاب کے تناظر میں پاکستان کو اصلاح دی گئی ہے کہ اپنے ذرائع سے حالات سے نمٹ لے اور آیندہ کے لیے بھی نمٹنے کے لیے اقدامات کرے۔
اتنے بڑے پیمانے پر سیلاب کے آنے کے بعد معیشت پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں جس سے نمٹنے کے لیے بڑی رقم درکار ہوگی جوکہ بلاسود اور بلا شرط ملنی چاہیے، لیکن اس وقت پاکستان کو جو رقم ملنے کی راہ ہموار ہوئی ہے وہ جولائی 2024 میں طے ہونے والے 7 ارب ڈالر کی سہولت سے متعلق ہے جس پر بھی سود ادا کیا جائے گا، اس رقم میں سے 1.2 ارب ڈالر کی قسط کی وصولی کے لیے اسٹاف لیول کا معاہدہ طے ہوا ہے اور مختلف شرائط کے تحت ہی یہ قرض ملے گا، اس کا مطلب ہے کہ قرض کے بار میں مزید اضافہ ہوگا۔
پاکستان کا شہری پہلے ہی ساڑھے تین لاکھ کے قرض تلے دبا ہوا ہے جو مختلف حکومتوں نے یہ رقوم حاصل کی تھیں، مختلف حکومتوں نے اپنے دور میں جو بھی رقم بطور قرض حاصل کیں، اب اس پر سود اتنا زیادہ ہو گیا ہے کہ بجٹ کی بڑی رقم کو ہڑپ کیے چلا جا رہا ہے جس کے نقصانات ظاہر ہو رہے ہیں صرف اتنی سہولت ملے گی کہ پاکستان کو اپنی ضرورت کے کچھ امور طے کرنے میں آسانی پیدا ہو جائے گی۔
جب کہ جس قسم کے اصلاحی پروگرام کا ہدف دیا گیا ہے اگر اس ہدف کا رخ اشرافیہ کی طرف موڑ دیا جائے تو غریب عوام پر بوجھ میں قدرے کمی آ سکتی ہے۔ مثلاً ٹیکس کی رقوم میں اضافہ، اس مد کے تحت اگر ہدف صرف اشرافیہ کو بنایا جائے تو اس سلسلے میں خاصی رقوم اکٹھی کی جا سکتی ہیں۔ ڈالر ریٹ بڑھنے سے امپورٹ بل پر خاصا دباؤ آئے گا جس کے لیے ضروری ہے کہ تمام تر غیر ضروری اور اشیائے تعیش پر جزوی یا کسی گروپ یا کسی قسم کی اشیا کی امپورٹ پر کلی پابندی عائد کر دی جائے لیکن اس سلسلے میں یہ قباحت پیدا ہو سکتی ہے کہ بعض اقدامات آئی ایم ایف کو ناگوار بھی گزر سکتے ہیں کیونکہ ابھی تک تمام معاملات طے ہونے کے بعد بھی آئی ایم ایف بورڈ کی منظوری ابھی باقی ہے۔ بہت سی شرائط ایسی ہیں جن سے عوام پر ہی دباؤ کے بڑھنے کے امکانات ہیں۔
ان تمام باتوں کے باوجود یہ مجبوری ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط تسلیم کی جائے ساتھ ہی حکومت کو غریبوں پر دباؤ یا یہ کہ ایسے اقدامات جس سے مزید افراد غربت کی سطح سے نیچے چلے جائیں۔
حکومت کو اپنے طور پر کئی فلاحی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہوگی۔ کوشش یہ کرنا کہ عوام پر ٹیکس کا بوجھ بڑھنے کے بجائے اشرافیہ کی جانب رخ کیا جائے۔ فیکٹری کارخانے جوکہ بند ہو رہے ہیں ایسے اقدامات کیے جائیں جس سے کارخانے مزید کھل جائیں اور بند ہونے کا سلسلہ ختم ہو جائے۔ بعض اوقات غیر ملکی سرمایہ کاری اس لیے نہیں ہو پاتی کہ اس پر سرکاری سرخ فیتا سب سے بڑی رکاوٹ بن جاتی ہے لہٰذا ان افراد پر کچھ پابندی ہونی چاہیے جوکہ کارخانوں کے قیام میں رکاوٹ کا سبب بن جاتے ہیں۔