یقیناً یہ معاہدہ یا مذاکرات درست سمت میں پہلا قدم کہا جاسکتا ہے۔وزیر خارجہ اسحاق ڈار کے بقول استنبول میں قابل تصدیق نگرانی کا نظام قائم کیا جائے گا ۔ یہ بھی طے ہوا ہے کہ سرحد پر مستقل امن کے لیے طریقہ کار بھی وضع کیا جائے گا ۔ترکیہ اور قطر کے بقول افغان طالبان عملی طور پر اپنی سرزمین سے ہونے والے دہشت گردانہ حملے روکنے کے ذمے دار ہوں گے۔یقینی طورپر جو کچھ طے ہوا ہے اس کے مستقبل کا انحصار اس معاہدے پر مکمل عملدرآمد سے مشروط ہے ۔کیونکہ پاکستان کے بقول افغانستان سے جنگ بندی دراندازی اور دہشت گردی نہ ہونے سے مشروط ہے اور یہ ہی وہ بنیادی نقطہ ہے جو امن سے جڑا ہوا ہے۔
افغانستان سے کوئی بھی حملہ معاہدے کی خلاف ورزی ہوگا۔یہ بات بھی اصولی طور پر تسلیم کی گئی کہ دونوں ممالک میں تناؤاور ٹکراؤ یا جنگی ماحول کی وجہ دہشت گردی کے واقعات ہوئے ہیں اور افغان سرزمین اس وقت مسلسل پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہورہی ہے۔ جب کہ پاکستان کی جانب سے یہ بھی واضح کردیا گیا کہ ٹی ٹی پی سے کسی بھی سطح پر مذاکرات نہیں ہوں گے اور جو بھی بات چیت ہوگی وہ افغان حکومت سے ہوسکتی ہے کیونکہ ہمارا معاہدہ افغان حکومت سے ہوا ہے۔ جب کہ ٹی ٹی پی سے نمٹنا افغان حکومت کا کام ہے اور اسے ہر صورت ٹی ٹی پی کے حوالے سے پاکستان کے تحفظات کو دور کرنا ہوگا۔
اصولی طور پر پاکستان اور افغانستان کے درمیان جو جنگی ماحول حالیہ دنوں میںدیکھنے کو ملا تھا ،اس کی بنیادی وجہ افغان طالبان کا ٹی ٹی پی کے خلاف کوئی بھی کارروائی کرنے سے انکار اور حال ہی میں ٹی ٹی پی اور افغان طالبان کا مشترکہ حملہ بنا ہے، جس سے پاکستان کا صبر ٹوٹا اور اسے ٹی ٹی پی یا الخوارج کے خلاف دفاعی کارروائی کرنا پڑی۔ یہ حملہ اس وقت ہوا جب افغانستان کے وزیر خارجہ بھارت کا دورہ کررہے تھے ۔ یہ واضح اعلان تھاکہ بھارتی اسپانسرڈ فتنہ الہندوستان اور فتنہ الخوارج پاکستان کے خلاف متحد ہیں۔ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ پاکستان کی جانب سے افغانستان کو اپنا اسٹرٹیجک پارٹنر سمجھنے کی حکمت عملی بھی غلط ثابت ہوئی ہے۔
صرف ایک ماہ کے دوران افغانستان سے ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد گروہوںکے حملوں کے نتیجے میں فوجی افسران سمیت پاکستانی سیکیورٹی اہلکاروں کی شہادتیں ہوئی ہیں ۔ یہ برس پاکستان کے لیے بڑا خون ریز ثابت ہوا اور اس پر پاکستان کا سخت ردعمل فطری تھا۔ افغان حکومت کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کے مختلف دھڑوں کی محفوظ پناہ گاہوں کے خلاف بڑی کارروائی کرنے سے مسلسل انکاری ہے جنھیں وہ سرحد پار حملوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔چین کی معاونت اور پھر ماسکو میں ہونے والے مختلف وزرائے خارجہ یا ماسکو فارمیٹ کی بنیاد پر بھی کوئی بڑی مثبت تبدیلی دیکھنے کو نہیں مل سکی اور افغان طالبان نے جنگ کا ماحول اختیار کرلیا تھا۔
اسی طرح بھارت جو کل تک اپنی پالیسی کے تحت طالبان کو انتہاپسند اور دہشت گرد سمجھتا تھا ۔لیکن اب اس کی پالیسی میں افغان طالبان کی حمایت نظر آتی ہے جب کہ افغان طالبان کی قیادت بھی بھارت کی گود میں بیٹھی نظر آتی ہے۔ بھارت کی جانب سے افغان طالبان اور ٹی پی ٹی کی سپورٹ پر پاکستان کی تشویش بجا ہے اور وہ اس اتحاد کو اپنے لیے ایک بڑے خطرہ کے طور پر دیکھتا ہے۔لیکن اس کے لیے ہمیں دیگر ممالک سے بہت زیادہ توقعات اپنے حق میں نہیں رکھنی چاہیے کیونکہ ہر ملک کی پالیسی اس کے اپنے ریاستی اور معاشی تعلقات کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ہمیں ضرور دیگر ممالک سمیت سعودی عرب ، قطر اور چین کی بنیاد پر آگے بڑھنا چاہیے اور ان پر زور دیناچاہیے کہ وہ افغان حکومت پر دباو ڈالیں کہ وہ اپنے موجودہ طرز عمل جو پاکستان مخالف ہے اس پر عملاً نظر ثانی کرے۔ ہمیں ہر صورت افغانستان کے تناظر میں اپنا بیانیہ داخلی ،علاقائی اور عالمی سیاست میں زندہ رکھنا ہے اور ثابت کرنا ہے کہ افغانستان دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ بنا ہوا ہے ۔
استنبول میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ جنگ بندی کے تناظر میں حتمی شرائط طے کرنے لیے اسی ماہ مذاکرات کا دوسرا راؤنڈ ہے، اس کو جامع اور ٹھوس بنانے کے لیے بھی ہمیں اپنے سفارتی یا سیاسی کارڈ کھیلنے ہوںگے ۔جو لوگ پاکستان میں طالبان میں طالبان کے وکیل بنے ہوئے ہیں اور برملا یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ طالبان کے ساتھ معاملات طے کرسکتے ہیں۔
ان کے پاس بھی موقع ہے کہ وہ اس معاملے میں اپنے دعوے کی سچائی ثابت کریں۔ دوحہ مذاکرات کے نتیجے میں جنگ بندی کی صورت میں ایک بریک تھرو مل گیا ہے، اس کی مستقل حیثیت کو بحال کرنا ہوگا اور اس کوشش سے گریز کرنا ہوگا کہ یہ سب کچھ وقتی ہو اور آگے جاکر حالات مزید بگاڑ کا شکار ہوں۔ ان مذاکرات میں افغان وفد کی قیادت ملا یعقوب نے کی جو پاکستان مخالفت میں پیش پیش رہتے ہیں ۔ان کی موجودگی میں مذاکرات کا آگے بڑھنا اہم پیش رفت ہے۔بھارت یقینی طور پر پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات پر خوش نہیں ہوگا اور اس کی سفارتی کوشش ہوگی کہ دونوں ملکوں کے درمیان ڈیڈ لاک ہو اور تعلقات بہتری کی بجائے بگاڑ کا شکار ہوں۔اس لیے اصولی طور پر افغانستان کی طالبان قیادت کو بھارت کی حکمت عملی پر نظر رکھنی ہوگی کیونکہ وہ بھارت کی گود میں بیٹھے ہوئے ہیں، پاکستان کی بھارت کے حوالے سے پالیسی تو واضح ہے۔
اگرافغانستان پاکستان سے تجارت کے معاملات کو آگے بڑھانا چاہتا ہے تو اس سے پہلے اس کو اپنے داخلی معاملات کی درستگی کے ساتھ ساتھ پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو معمول پر لانا ہوگا ، دہشت گردی کی سرپرستی بند کرنا ہوگی۔کیونکہ حالیہ مذاکرات کو بنیاد بنا کر دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا اور ایسی کسی حکمت عملی یا طرز عمل سے گریز کرنا ہوگا جو حالات کو دوبارہ بگاڑ کی طرف لے کر جائیں ۔افغانستان اس نقطہ سے بھی باہر نکلے کہ وہ دباؤ کی پالیسی کو بنیاد بنا کر کوئی فائدہ اٹھا سکتا ہے کیونکہ دباؤ ڈالنے کی پالیسی منفی ردعمل دے گی۔اس لیے گیند افغان طالبان کی کورٹ میں ہے اور انھیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ انھوں نے امن اور جنگ میں سے کس راستے کا انتخاب کرنا ہے۔