عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی نائب صدر کے حالیہ دورے کا مقصد غزہ جنگ بندی پر عمل درآمد کی رفتار کا جائزہ لینا بھی ہے۔
امریکی نائب صدر جے ڈی وینس کی معاونت کو آج امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو بھی اسرائیل پہنچ گئے جب کہ صدر ٹرمپ کے داماد اور مشرق وسطیٰ کے مشیر جیرڈ کُشنر پہلے ہی موجود ہیں۔
امریکی وفد نے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو سے ملاقات میں اس بات پر زور دیا کہ غزہ کے لیے کوئی بلان بی نہیں ہے۔ صدر ٹرمپ جنگ بندی معاہدے پر مکمل عمل درآمد چاہتے ہیں۔
صدر ٹرمپ کا پیغام لیکر پہنچنے والے امریکی وزیر خارجہ نے اسرائیل پر واضح کیا کہ جو ممالک غزہ میں اپنی فوج بھیجیں گے، اس کے ساتھ مکمل تعاون کیا جائے۔
امریکی وزیر خارجہ نے اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت پر زور دیا کہ اسرائیل اب مغربی کنارے کے کسی بھی ایک علاقے کو اپنی ریاست میں ضم نہیں کرے گا۔
مارکو روبیو نے اسرائیلی حکام کو ہدایت کی ہے کہ غزہ جنگ بندی معاہدے پر عمل درآمد جاری رکھیں۔
امریکی وزیر خارجہ نے اس بات کا بھی اشارہ دیا کہ غزہ جنگ بندی کا اگلا مرحلہ مزید عرب ممالک کے ساتھ اسرائیل کا ابراہیمی معاہدہ بن سکتا ہے۔
وزیر خارجہ مارکو روبیو نے یہ بھی کہا کہ حماس کو ہر صورت اسلحہ پھینکنا ہوں گے۔ انھیں غیر مسلح کیے بغیر امن ممکن نہیں۔
امریکی وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے اونرا میں حماس کے کارکن یا حمایتوں کی بھرتیوں کا الزام بھی عائد کیا۔
انھوں نے مزید کہا کہ اس بنیاد پر اونرا کو غزہ میں خوراک کی تقسیم کے کسی مرحلے میں شامل نہیں کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ امریکی صدر کی ثالثی اور قطر و مصر کی ضمانتوں پر غزہ جنگ بندی کا پہلا مرحلہ 10 اکتوبر سے نافذالعمل ہے۔
جس کے تحت حماس نے تمام زندہ اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کردیا جب کہ مردہ یرغمالیوں کی لاشوں کی حوالگی کا سلسلہ جاری ہے۔
جس کے بدلے میں اسرائیل نے بھی ہزار سے زائد فلسطینی قیدیوں کو جیل سے رہا کیا اور متعدد فلسطینیوں کی میتیں بھی حوالے کی ہیں۔