غریب کی تو بات ہی کیا ہے، اب تو متوسط سے لے کر امیر گھرانے بھی بے چین و پریشان نظر آتے ہیں۔ اس کی وجہ ہمارے ماہرین ہماری حکومتوں کی غلط پالیسیاں قرار دیتے ہیں مگر موجودہ حکومت تو صاف طور پر واضح کر چکی ہے کہ ملکی موجودہ معاشی صورت حال کی وہ ذمے دار نہیں ہے وہ تو دن رات ملکی حالات کو درست کرنے میں لگی ہوئی ہے اور بلکہ اس کا دعویٰ ہے کہ اس نے حالات کو پہلے سے بہت بہتر کر دیا ہے ورنہ پچھلی حکومت تو ایسے حالات چھوڑ کرگئی تھی کہ ملک کو سنبھالنا ہی بہت مشکل تھا مگر اس کے مطابق اس نے حالات سنبھال لیے ہیں اور آہستہ آہستہ تمام معاملات درست ہو جائیں گے، البتہ اس میں وقت ضرور لگے گا۔
جب لوگ سابقہ حکومت کے لوگوں سے رجوع کرتے ہیں تو وہ اپنا پلہ جھاڑ دیتے ہیں اورکہتے ہیں کہ وہ تو اقتدار سے ہٹائے جاتے وقت ملکی تمام حالات کو بہترین سطح پر چھوڑ کر آئے تھے۔ اس وقت ملکی خزانہ بھی بھرا ہوا تھا، مہنگائی سمیت تمام ہی حالات بہتر تھے۔ بے روزگاری سے لے کر امن و امان تک کنٹرول میں تھے، تجارتی سرگرمیاں بھی عروج پر تھیں۔ عوام میں ہماری حکومت کے لیے بہترین جذبات تھے، اس لیے کہ ہماری تمام پالیسیاں عوامی مفاد میں تھیں، عوام ان کی حکومت کو پسند کرتے تھے، بس اسے کیا کہا جائے کہ ہماری حکومت کو زبردستی ہٹا دیا گیا۔
کسی بھی سابقہ حکومت کے وزیر یا مشیر سے بات کرو، وہ بالکل یہی کہے گا، لیکن موجودہ حکومت کہتی ہے کہ پہلے حالات درست نہیں تھے انھوں نے اب اپنی محنت سے درست کر لیے ہیں تو اب عوام موجودہ مہنگائی بے روزگاری اور خراب امن و امان کا کسے ذمے دار قرار دیں؟ پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ خواہ سابقہ حکومتیں ہوں یا موجودہ حکومت اقتدار کو سنبھالنے کے بعد مختلف مشکلات کا شکار ہو جاتی ہیں۔ سب سے اول ملک کی سلامتی اور بقا کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے۔ سب سے پہلی مصیبت جو ان کے سامنے آتی ہے وہ ملک میں تسلسل سے جاری دہشت گردی ہے پھر دشمن کی جانب سے مسلسل چھیڑ چھاڑ سے نمٹنا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔
اب تو وقفے وقفے سے اس کے حملوں کا مقابلہ کرنا بھی ایک گمبھیر مسئلہ بن گیا ہے۔ پی ٹی آئی کے دور میں بھی ملک کو بھارتی جارحیت کا سامنا تھا، دشمن نے اس وقت مقبوضہ کشمیر میں اپنے دہشت گردوں سے پلوامہ میں ایک سنگین دہشت گردی کا واقعہ کروایا جس کا الزام سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پاکستان پر عائد کر دیا گیا جس کے جواب میں پاکستان پر بلاجواز فضائی حملہ کیا گیا جس سے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی ہوئی مگر یہ محض سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے کیا گیا تھا اور اب اس نے کچھ ماہ قبل پہلگام میں اپنے ہی لوگوں کو جو کشمیر کی سیرکرنے آئے تھے، اپنے دہشت گردوں سے قتل کرادیا اور جھوٹا الزام پاکستان پر لگا کر پاکستان پر باقاعدہ حملہ کردیا جس کے جواب میں پاکستان نے بھارت کے سات طیارے مار گرائے جن میں قیمتی اور جدید رفال بھی شامل تھے، اس سے قبل ممبئی میں بھی دشمن ایسی ہی شرمناک حرکت کر چکا ہے۔
یہ وہ کارروائیاں ہیں جو پاکستان کو بدنام کرنے اور بیرونی سرمایہ کاری روکنے کے لیے کی جا رہی ہیں۔ دشمن نے ملک میں دہشت گردی کا بھی ایک بڑا جال بچھا دیا ہے۔ اس وقت افغانستان پاکستان کے لیے ایک بڑا سر درد بن گیا ہے۔ افغانستان کے عدم استحکام سے فائدہ اٹھا کر اس نے ٹی ٹی پی کی شکل میں پاکستان کے لیے ایک مستقل دہشت گردی کا دروازہ کھول دیا ہے۔ پاکستان بے شک اس بھارتی پراکسی کا بڑی بے جگری سے مقابلہ کر رہا ہے مگر بڑی تعداد میں شہری اور فوجی شہید ہو رہے ہیں۔ بلوچستان میں دہشت گردی کا جال بچھانے والا بھی بھارت ہے۔ حکومت پاکستان نے بلوچستان میں دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے تمام ہی اقدامات کر لیے ہیں مگر دہشت گردی کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ رہی ہے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ دہشت گردی خواہ پختونخوا میں ہو یا بلوچستان میں دہشت گردوں کو اسلحہ اور پیسہ کہاں سے مل رہا ہے؟ چاہ بہار بندرگاہ سے بلوچستان میں موجود دہشت گردوں کو پہلے وہاں سے پوری سپورٹ مل رہی تھی لیکن اب چاہ بہار بندرگاہ بھارت کے چنگل سے نکل چکی ہے تو ایسے میں ایک بڑا انکشاف ہوا ہے کہ بھارت نے پاکستان کو دہشت گردی کی دلدل میں مزید پھنسانے کے لیے بہت محنت کی ہے اور کافی بھاگ دوڑ کی ہے۔ گوکہ وہ پہلے سے چاہ بہار بندرگاہ حاصل کر چکا تھا مگر اس نے اس پر اکتفا نہیں کیا اور مزید محفوظ اور موثر جگہ حاصل کرنے کے لیے سلطنت عمان سے رجوع کیا۔ عمان کے سابق بادشاہ بھارت کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے کیونکہ انھوں نے وہاں سے ہی تعلیم حاصل کی تھی۔
چنانچہ عمان سے اس کا ایک جزیرہ اپنا نیول پورٹ بنانے کے لیے مانگ لیا جس کا اصل مقصد تو وہاں سے گوادر بندرگاہ کو ناکام بنانے کے لیے بلوچستان میں دہشت گردی کو بڑھانا تھا۔ حکومت عمان کی مہربانی کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے وہاں سے پاکستان مخالف کارروائیاں شروع کر دیں جو اب بھی جاری ہیں۔ خبر کے مطابق وہاں بھارت نے ایک لسننگ ٹاور (آوازیں ریکارڈ کرنے والا ٹاور) قائم کیا ہے جہاں بلوچستان میں دہشت گردوں کے خلاف دی جانے والی ہدایات کو ریکارڈ کیا جاتا ہے اور ان ہدایات کی روشنی میں اپنے دہشت گردوں کو حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ انھیں دہشت گردی کرنے کے لیے نئی ہدایات جاری کی جاتی ہیں۔
اس وقت پی ٹی آئی کی حکومت تھی جب یہ لسننگ ٹاور عمان میں قائم کیا گیا تھا۔ اس دہشت گردانہ کارروائی کو روکنے کے لیے عمانی حکومت سے رجوع کیا جاسکتا تھا مگر ایسا نہیں ہو سکا۔ بہرحال اب جب کہ اس دہشت گردی کے مرکز کا انکشاف ہو چکا ہے تو موجودہ حکومت کو عمان حکومت سے رجوع کرنا چاہیے اور پوری امید ہے کہ عمانی حکومت بھارت کی اس دہشت گردی کو کسی بھی صورت برداشت نہیں کرے گی اور وہ ضرور اس کا قلع قمع کر دے گی۔ گوادر بندرگاہ پاکستان کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ اسے تعمیر ہوتے ہوئے اب کئی برس ہو چکے ہیں مگر یہ ابھی تک مکمل طور پر فعال نہیں ہو سکی ہے جس کی وجہ ظاہر ہے بھارتی دہشت گردی ہے جس کا اب بہر صورت تدارک کیا جانا چاہیے۔