ان کے فرزندوں میں سے ایک تو ٹھیکیدار ہے،دوسرا مینجر ہے، تیسرا پولیس میں خدمات سرانجام دے رہا ہے اور چوتھا وکیل ہے پانچواں ابھی ایک انگلش میڈیم کالج میں زیر تعلیم بلکہ زیر تعمیر ہے، لیکن ان کے انگریزی اسکولوں اور کالجوں کا ایک چین بنا ہے۔جناب علامہ بریانی کو دم چف اور تعویذات و عملیات میں بھی خاصی شہرت حاصل ہے خاص طور پر جنات بھگانے میں تو ان کو یدطولیٰ حاصل ہے۔
اس فتوے کا پس منظر یوں ہے کہ ہم کافی عرصے سے حیران وپریشان تھے بلکہ خامہ انگشت بدنداں اور ناطقہ سربگریباں تھے کہ آخر یہ جو ہمارا پیارا وطن عزیز ہے جو اسلام کے نام پر بنا ہے، اسلام کے جان لیواؤں نے بنایا ہے، اسلام کے لیے بنایا ہے اس کا مرکز بھی اسلام آباد ہے، اسلامی آبادی بھی ہے، اس کے دائیں بائیں آگے پیچھے اوپر نیچے اسلام ہی اسلام ہے۔
ہر شخص کی زبان پر بھی اسلام ہے کانوں میں بھی اسلام ہی اسلام گونج رہا ہے۔ جسے دیکھو دین ہی دین ایمان ہی ایمان کی باتیں کررہا ہے، دوسرے کو راہ راست پر لانے کے لیے تلقین کررہا ہے۔ہزاروں لاوڈاسپیکر مشغول ہیں، قدم قدم پر مخیر تنظمیں اور شخصیات بھی مصروف ہیں، نیک رہنما بھی زندگی دین کے لیے وقف کرچکے ہیں اوراوپر سے دینی سیاسی پارٹیاں اور ان کے دیندار رہبر و رہنما
نام ہونٹوں پہ ترا آئے تو راحت سے ملے
تو دلاسہ ہے تسلی ہے دعا ہے کیا ہے
مطلب یہ کہ ہر طرف ہر جگہ یہاں تک کہ ہواؤں میں فضاؤں میں بھی نیکیاں ہی نیکیاں رچی بسی ہیں بلکہ اب تو ’’للبنات‘‘ کا سلسلہ بھی اچھا خاصا چل نکلا ہے۔ اندازہ اس سے لگائیں کہ چند روز پہلے ہمارے گھر کچھ خواتین مبلغات تشریف لائیں ،انھوں نے خواتین کو تبلیغ کی اور خاص خاص کام کے لیے وظائف بتائے۔پھر ان کا خیال ہمارے گھر کے چولہے کی طرف گیا کہ یہ چولہا غلط ہے۔
اس کا رُخ غلط ہے اور اس میں آگ جلتی ہے، فوراً اسے توڑ کر دوسرا چولہا بناؤ جس کا رُخ دوسری طرف ہو۔اور یہ تو آپ نے دیکھ لیا ہوگا کہ امام صاحب کے پاس مائک ہوتا ہے ، مقصد یہ ہے کہ جو لوگ مسجد میں جگہ نہ ہونے کی وجہ سے دور ہیں وہ بھی جہاں ہیں وہاں نماز پڑھ سکیں یا فضا میں آلودگی کے سبب سے آواز دور تک صاف صاف نہیں پہنچ رہی ہو تو پہنچ جائے۔مطلب یہ ہر ہر کوچے میں دین ہی دین اور لنگرخانے چل رہے ہیں، چندے کا دھندہ زوروں سے چل رہا ہے لیکن دوسری طرف دیکھیے تو سرکاری اداروں میں مال حرام کے دریا چشمے نہریں اور ندی نالے بھی ٹھاٹھیں مار رہے ہیں۔
مطلب یہ کہ ایک طرف عبادات ہی عبادات ہیں تو دوسری طرف دیکھیے تو حلال وحرام کا تو سوال ہی بیچ میں سے نکل گیا ہے بس کمائی ہو، جیسا کہ غالب نے آموں کے بارے میں کہا ہے کہ میٹھے ہوں اور بہت ہوں یا بعض قبیلوں کا عورتوں کے بارے میں خیال ہے کہ عورتیں ہوں اور بہت ہو۔ہر وہ کمائی حلال ہے جو حاصل کی جاسکتی ہے البتہ وہ حرام ہے جو رسائی سے باہر ہو یا دوسرے کرتے ہوں۔ علامہ اقبال نے ایک چیز’’تاویل‘‘ کے بارے میں بتایا ہے
تاویل سے قرآں کو بنادیتے پازند
اس تاویل سے کچھ بھی حلال کیا جاسکتا ہے اور کچھ حرام بنایا جاسکتا ہے۔یہ مسئلہ ہمیں پریشان کیے ہوئے تھا پھر ہمیں کسی نے پروفیسر ڈاکٹر بیرسٹر انجینئر عامل کامل حضرت علامہ بریانی کے بارے میں بتایا کہ ان کے پاس ہر مسئلے کا حل موجود ہے جو مسائل اس وقت دنیا کو لاحق ہیں ان کا بھی اور جو موجود نہیں ان کا بھی۔البتہ بتانے والے نے بتایا کہ اپنے ساتھ بریانی لے جانا مت بھولیے اور یہ بات بالکل سچ نکلی ہم نے جب دروازے کا ایک پٹ کھول کرکہا کہ میں آؤں یعنی اجازت ہے تو ان کے چہرے پر سخت بدمزگی ناگواری پھیل گئی۔
اس وقت ہمارا دوسرا ہاتھ جو اوٹ میں تھا اور جس میں بریانی تھی اور جب ہم نے وہ ہاتھ بھی باہر نکالا تو علامہ بریانی کا چہرہ مبارک ایک دم گل وگلزار اور باغ وبہار ہوگیا اور ہونٹوں سے اہلاً سہلاً مرحبا کے پھول نکلنے لگے۔
خیر جب ہم نے اپنا مسئلہ بیان کیا کہ ایک طرف اتنی زیادہ نیکیاںاور دنیاوی معاملات میں ذرہ بھر بھی نیکی نہیں ۔تو مسکرائے اور بولے لگتا ہے تم پرلے درجے کے جاہل، بے خبر اور عامی امی ہو۔مجھے بتاو ماں کا دودھ حلال ہوتا ہے یا حرام؟ عرض کیا حلال بلکہ اس کی مثالیں دی جاتی ہیں جیسے فلاں اتنی ایمانداری سے کام کرتا ہے کہ اس کی تنخواہ ماں کا دودھ ہے، فلاں اتنی محنت کرتا ہے کہ اس کی کمائی ماں کا دودھ ہے۔تو یہ دھرتی کیا ہے یہ بھی تو ماں ہے اور اس کی پیداوار اس کے وسائل اس کی جمع پونجی ہر چیز اس کا دودھ ہے اور جو لوگ اسے پی رہے ہیں ان کے لیے ماں کا دودھ ہے۔اب یہ الگ بات ہے کہ باہمت بچے بڑھ کر ماں کا دودھ پی رہے ہیں اور بے ہمت نکمے نکھٹو اپنا انگوٹھا چوس رہے ہیں ۔