اماں میرے حصے کی گولی کہاں ہے؟

سات اکتوبر دو ہزار تئیس کو روز کی عمر ایک برس تھی۔اب تین برس ہے۔ والد ڈاکٹر ہیں لہٰذا وہ دور کسی اسپتال میں ہیں۔والدہ ٹیچر ہیں مگر دو برس سے کیمپ کے بچوں کو رضاکارانہ تعلیم دینے والے اساتذہ میں شامل ہیں۔روز کی والدہ جن بچوں کو باقاعدہ اسکول میں پڑھاتی رہی ہیں۔ان میں سے اکثر اپنے کنبوں سمیت تتر بتر یا لاپتہ ہیں یا شاید بہت سے اب تک بمباری ، بھوک یا بیماری سے مر چکے ہوں گے۔

تین سالہ روز آج کل خاندان کے سات دیگر افراد کے ساتھ المواسی کے ساحل کے کنارے لگے ہزاروں میں سے ایک خیمے میں رہ رہی ہے۔ جب سے کچھ ہوش سنبھالا ہے اس کی دنیا بڑوں سے بہت مختلف ہے۔

مثلاً روز اپنی والدہ یا خالہ سے لپٹ کر ہی سو پاتی ہے۔خالہ نے ایک بار روز کو ایک تباہ شدہ گھر کی ٹھوس دیوار چھوائی تو روز اس ڈر سے چیخنے لگی کہ یہ دیوار اس کے خیمے کی دیوار کی طرح ہوا میں اڑ جائے گی۔اس کا تصورِ دیوار خیمے کی موٹی چادر ہی ہے۔

روز دھماکوں سے بہت ڈرتی ہے۔ کسی کے ہاتھ سے برتن بھی چھوٹ جائے تو چیخنے لگتی ہے۔ خالہ کے بقول ایک رات قریب ہی کوئی راکٹ گرا تو دھماکے کی آواز سے سوتی ہوئی روز اچھل کے کھڑی ہو گئی اور اپنا ایک کان بار بار پکڑنے لگی۔میں نے پوچھا بیٹا آپ نے کان ایسے کیوں پکڑا ہوا ہے۔روز نے الٹا مجھ سے پوچھا خالہ میرا کان تو ہے نا۔میں نے کہا کہ آپ کے دونوں کان بالکل ٹھیک ہیں۔روز نے باہر جھانکتے ہوئے سامنے والے خیمے کی طرف اشارہ کیا جہاں روز کی ایک ہم عمر سہیلی رہتی ہے اور کچھ دن پہلے ہی ایک دھماکے میں اس کا ایک کان زخمی ہو گیا ہے۔

 پانی کی شدید قلت ہے لہٰذا روز کو بھی ہزاروں دیگر بچوں کی طرح جلد کی خارش ہے۔ کجھاتے کھجاتے تنگ آ جاتی ہے تو بے بس ہو کر رونے لگتی ہے۔ایک بار میں اسے قریب ایک نیم تباہ شدہ کمرے میں قائم ڈسپنسری میں لے گئی۔روز نے زندگی میں پہلی بار وہاں بیٹری سے چلتا ہوا پنکھا دیکھا۔جیسے ہی پنکھے کی ہوا اس کے چہرے سے ٹکرائی روز نے چیخیں مارنا شروع کر دیں۔میں فوراً اسے لے کر باہر نکل آئی اور بھینچ کے سینے سے لگا لیا۔

میں سوچتی رہی کہ روز پنکھے کی ہوا سے کیوں ڈر گئی جب کہ اس کے ہم عمر دوسرے بچوں کو یہ ہوا محسوس کر کے مزہ آ رہا تھا۔اور پھر مجھے وجہ سمجھ میں آ گئی۔جب بھی خیموں کے آس پاس کوئی بم گرتا ہے تو دھماکے سے پہلے تیز ہوا جیسا شور سنائی دیتا ہے اور پھر ریت اڑتی ہے۔روز کے نزدیک تیز ہوا چہرے پر لگنے کا مطلب یہی ہے کہ کوئی بم گرا ہے اسی لیے ہوا کا جھکڑ چلا ہے جس سے دیواریں اس کے اوپر گر جائیں گی۔

سما طبیل کی عمر آٹھ برس ہے۔جنگ سے پہلے اس کے بال اتنے لمبے تھے کہ دیکھنے والے رشک کرتے تھے۔گزشتہ اگست میں سما کے گھر سے ملا گھر بمباری سے تباہ ہو گیا۔ تب سے سما نروس شاک میں ہے۔

پچھلے دو برس میں مسلسل بے گھری کی تھکن ، دھماکوں کی لگاتار گونج ، قحط سالی اور کسی بھی لمحے مرنے کے خوف نے اس بچی کے بال چھین لیے اور اب وہ سر پر کپڑا باندھے خیمے میں چپ بیٹھی رہتی ہے۔کبھی باہر نکلے تو آس پاس کے بچے گنجی گنجی کہہ کے چھیڑتے ہیں۔ان حالات کا اس پر اتنا اثر ہے کہ والدہ سے کئی بار کہہ چکی ہے کہ اماں میں اتنی تھک چکی ہوں کہ مرنا چاہتی ہوں۔میرے حصے کی گولی کہاں رہ گئی ؟ جنت میں کم ازکم مجھے میرے بال تو مل جائیں گے نا۔

وار چائلڈ الائنس نامی ایک مقامی فلاحی گروپ نے گذرے جنوری میں عارضی جنگ بندی کے دوران ایک محدود سروے کیا۔پانچ تا بارہ برس کے چھیانوے فیصد بچوں کو خوف تھا کہ وہ کل صبح سے پہلے مر جائیں گے۔ان میں سے انچاس فیصد کے ذہنوں میں یہ خیال منجمد ہو گیا ہے کہ اگلے جہان کی زندگی یقیناً اس جگہ سے بہتر ہی ہو گی۔

روز اور سما ان ہزاروں بچوں میں سے صرف دو ہیں جن کے نزدیک ببماری ، نقلِ مکانی ، سخت موسم ، خوراک کی کمیابی ، زمین پر بے جان پڑے یا خون میں لت پت کراہتے لوگ ہی زندگی ہیں۔کئی بچے ایسے ہیں جو یہ مناظر و مصائب دیکھ دیکھ کر بالکل کوئی ردِ عمل نہیں دیتے۔گویا ان کی قوتِ گویائی سلب ہو گئی ہو۔ بس ٹکر ٹکر دیکھتے رہتے ہیں۔کبھی کسی اور بچے کے ہاتھ میں کھلونا دیکھ لیں تو بھی لاتعلق رہتے ہیں۔ یہ بچے جب بڑے ہوں گے تو جانے کیسے ہوں گے ؟

اگرچہ اڑسٹھ ہزار ہلاکتوں کی تصدیق ہو چکی ہے مگر کوئی نہیں جانتا کہ ملبے تلے کتنی لاشیں دبی پڑی ہیں یا کھلی پڑی کتنی لاشیں مٹی میں مل گئیں یا جانوروں کی غذا بن گئیں۔مگر یہ معلوم ہے کہ مرنے والوں میں سے چالیس فیصد نوزائیدہ سے لے کے پندرہ برس تک کے بچے ہیں۔

جو زندہ ہیں مگر معذور ہو گئے انھیں یہی شعور نہیں کہ ان کے ساتھ ایسا کیوں ہوا یا ہو رہا ہے۔ انھیں نہ صرف نیند اور درد کے شدید مسائل درپیش ہیں بلکہ آنکھ لگ بھی جائے تو اچانک کوئی برا خواب دیکھ کے ہذیان میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

اسکول بھی تو نہیں بچے جہاں کم ازکم ان بچوں کو کچھ دیر کے لیے بھیجا جا سکے۔اسکول ہوں بھی تو بنا فرنیچر ، کتاب ، کاپی ، پینسل وہاں کیا کریں گے۔ تعلیمی سامان بھی مسلسل ناکہ بندی کے سبب میسر نہیں۔ایسے بچوں کی تعداد کم ازکم سات لاکھ ہے جنھوں نے دو برس سے اسکول نہیں دیکھا۔

جنگ سے پہلے بھی کم ازکم بارہ لاکھ فلسطینی بچوں کو نفسیاتی سہارے اور مدد کی ضرورت تھی اور اب تو غزہ کے ہر بچے کو ضرورت ہے۔ان میں کم ازکم بیس ہزار بچے تو وہ ہیں جو مکمل بے سہارا اور ہر قسم کی زیادتی کے لیے تیار خام مال ہیں۔یعنی پوری پود کو ٹراما کھا چکا ہے۔

بہت سے بچے وہاں لوٹ رہے ہیں جہاں کبھی ان کا گھر ، ان کا کمرہ ، تصویریں اور کھلونے تھے۔ اب سارا بچپن ملبے تلے ہے اور اس کی یادیں ریتیلی سمندری ہوا کے دوش پر کہیں پرواز کر چکی ہیں۔کوئی بھی نام نہاد امن انھیں واپس نہیں لا سکتا۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

Similar Posts