یہ درست ہے کہ ملک کے داخلی اور سیاسی استحکام کے لیے حکومت کے سوا کوئی بھی سیاسی جماعت اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ ملک کی اہم سیاسی جماعتوں کو ایک جگہ بٹھانے میں کامیاب ہو سکے یہ کام واقعی حکومت کا ہونا چاہیے جیساکہ اے پی ایس اسکول پشاور پر دہشت گردی کے بعد ہوا تھا اور وزیر اعظم نواز شریف نے آل پاکستان کانفرنس منعقد کی تھی جس میں خود چیئرمین پی ٹی آئی نے بھی شرکت کی تھی اور کے پی میں پی ٹی آئی کی حکومت تھی۔
سانحہ اے پی ایس کے بعد سے کوئی حکومت ملک کو درپیش کسی بھی اہم مسئلے پر کوئی ایسی اے پی سی منعقد کرنے میں کامیاب تو کیا ہوتی کسی حکومت نے ایسی کوشش تک نہیں کی۔ 2018 میں ایک منصوبے کے تحت پی ٹی آئی کو وفاق اور پنجاب میں برسر اقتدار لایا گیا تھا جب کہ 2013 سے کے پی میں پی ٹی آئی اور 2008 سے سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت چلی آ رہی تھی۔
2018 میں مسلم لیگ (ن) نے پنجاب میں سب سے زیادہ نشستیں لی تھیں مگر (ن) لیگ کو نظرانداز اور دیگر پارٹیوں و آزاد ممبران کو ملوا کر پنجاب میں بھی پی ٹی آئی کی حکومت بانی پی ٹی آئی کی خواہش پر بنوائی گئی تھی جس کے بعد ملک میں داخلی اور سیاسی عدم استحکام پیدا ہوا تھا جو ختم کرانا اس وقت کے وزیر اعظم کی ترجیح تھی ہی نہیں جس کی وجہ سے انھوں نے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو اپنے سیاسی انتقام کا نشانہ بنانا شروع کیا تھا اور ان کے عتاب سے صرف حکومتی حلیف پارٹیاں کسی حد تک محفوظ تو تھیں مگر حکومت میں ان کی بھی نہیں سنی جاتی تھی نہ ان سے کیے گئے وعدوں پر توجہ دی جاتی تھی۔
پی ٹی آئی حکومت نے سابق صدر آصف زرداری، سابق وزیر اعظم نواز شریف، قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف (ن) لیگ و پی پی کے سابق وزرائے اعظم شاہد خاقان عباسی، یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف سمیت دونوں سابق حکمرانوں کے اہم رہنماؤں پر نیب سے مقدمات بنوائے اور انھیں گرفتار کرایا تھا صرف جے یو آئی محفوظ تھی مگر کسی حکومتی حلیف میں جرأت نہیں تھی کہ وہ وزیر اعظم کو سیاسی انتقام سے روکتے کہ وہ ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا نہ کریں جو اس وقت عروج پر تھا۔
آج کی طرح سیاسی تجزیہ کار بھی خاموش تھے وہ بھی حکومت کو سیاسی عدم استحکام کا ذمے دار قرار نہیں دیتے تھے اور زیادہ تر حکومت کے سیاسی انتقام پر خاموش رہتے تھے مگر آج ایسا نہیں ہے۔ شہباز شریف میں اتنا سیاسی انتقام نہیں ہے نہ ہی نیب کو اتنا فری ہینڈ ملا ہوا ہے جتنا پی ٹی آئی کے دور میں تھا۔
سابقہ حکومت کی طرح موجودہ حکومت بھی خوش ہے کہ بالاتروں کی اسے مکمل حمایت حاصل ہے اور یہی خوشی سابق وزیر اعظم کو تھی اور انھوں نے اپنے مطالبات منوانے کے لیے راولپنڈی تک لانگ مارچ بھی کیا تھا جب کہ اس سے قبل ملک میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی سیاسی رہنما نے اپنے مفادات پورے نہ ہونے پر ریاستی اداروں کی بلاجواز مخالفت اتنی انتہا تک کی ہو۔ پی ٹی آئی نے مخالفت کا جو سلسلہ تین سال پہلے شروع کیا تھا اسے اب تک برقرار رکھا گیا ہے جب کہ دس مئی کی فتح کے بعد امریکی صدر سمیت دنیا پاکستان کے آرمی چیف کی گرویدہ ہو چکی ہے۔
موجودہ اسٹیبلشمنٹ صرف اپنے کام سے کام رکھے ہوئے ہے اور سیاسی معاملات سے دور ہے۔ ملک میں آج جو سیاسی تناؤ ہے اس کے خاتمے کی وزیر اعظم نے کوشش کی تھی جس پر کچھ مذاکرات بھی ہوئے پھر پی ٹی آئی نے خود انکار کر دیا کہ وہ حکومت سے مذاکرات کرنا ہی نہیں چاہتی بلکہ صرف اور صرف فوج سے مذاکرات کرے گی مگر فوج کی طرف سے انکار کر دیا گیا کہ وہ سیاسی معاملات میں فریق نہیں جس نے بھی مذاکرات کرنے ہیں حکومت کے ساتھ بیٹھ کر کرے۔ حکومت نے کبھی پی ٹی آئی سے مذاکرات سے انکار نہیں کیا نہ یہ کہا گیا کہ سیاسی استحکام ہماری ذمے داری نہیں ہے تو پھر پی ٹی آئی کی حمایت میں یہ کہا جاتا ہے کہ سیاسی عدم استحکام کی ذمے دار حکومت ہے۔
حکومت تو کوشش کر چکی کہ اس کے اور پی ٹی آئی کے درمیان سیاسی مذاکرات ہوں مگر بانی پی ٹی آئی موجودہ حکومت کو مانتے ہیں نہ مذاکرات چاہتے ہیں تو عدم استحکام کی ذمے داری صرف حکومت پر نہیں ڈالی جا سکتی، ہاں تجزیہ کاروں کا یہ موقف درست ہے کہ داخلی استحکام کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو ایک صفحے پر ہونا چاہیے۔ حکومت اس سلسلے میں سیاسی پارٹیوں کو ایک صفحے پر لانے کی کوشش بھی کرے تو پی ٹی آئی کبھی راضی نہیں ہوگی کیونکہ انھیں سیاسی استحکام سے نہیں اپنے بانی کی رہائی سے دلچسپی ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ داخلی سیاسی استحکام کے لیے اے پی سی بھارت اور افغانستان کے اہم مسئلے پر ہی منعقد کرکے دیکھ لے تو پتا چل جائے گا کہ پی ٹی آئی اس میں شریک ہوتی ہے یا نہیں۔ پی ٹی آئی شریک ہوئی تو ملک میں سیاسی استحکام کی خواہش پوری ہو سکتی ہے اور یہ بھی پتا چل جائے گا کہ کون ملک میں سیاسی استحکام چاہتا ہے کون نہیں چاہتا اور عدم سیاسی استحکام کی ذمے داری کس پر عائد ہوگی۔