اجلاس میں یہ مطالبہ کیا گیا کہ سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے اقدامات کیے جائیں اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے سیلاب متاثرین کی فوری مدد کی جائے۔ پیپلز پارٹی پنجاب کے رہنما ندیم افضل چن نے حکومت پنجاب کے نافذ کردہ بلدیاتی قانون پر سخت تنقید کی۔ ان کا مدعا تھا کہ غیر جماعتی بنیادوں پر بلدیاتی انتخابات کا انعقاد غیر جمہوری ہے۔ سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں ایک دفعہ پھر یہ فیصلہ ہوا کہ پیپلز پارٹی وفاقی کابینہ میں شامل نہیں ہوگی۔
سینٹرل کمیٹی کے اجلاس سے پہلے پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف، ان کی وزیر اطلاعات، بلاول بھٹو زرداری اور پیپلز پارٹی کے کئی رہنماؤں کے درمیان بیانات کی زبردست گولہ باری ہوئی تھی اور اس بیان بازی میں ایک مرحلہ ایسا آیا تھا کہ دونوں جماعتوں کے رہنماؤں نے ایک دوسرے کی قیادت پر تنقید شروع کر دی تھی۔ نائب وزیر اعظم اسحق ڈار کی قیادت میں وفاقی کابینہ کے ارکان نے نواب شاہ میں صدر زرداری سے ملاقات کی تھی۔
دونوں طرف سے گلے شکوؤں کے بعد مخالفانہ بیان بازی کا سلسلہ بند ہوگیا تھا مگر اس کشیدہ سیاسی ماحول کے دوران جب آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد میں کشمیر ایکشن کمیٹی کے دھرنا سے صورتحال انتہائی کشیدہ ہوگئی تھی تو وزیر اعظم نے ایک اعلیٰ سطح وفد مظفرآباد روانہ کیا اور اس وفد کی قیادت پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے کی جب کہ قمر الزمان کائرہ جیسے سینئر رہنما اس وفد میں شامل تھے۔ ایک طرف پیپلز پارٹی کی سینٹرل کمیٹی میں پنجاب میں نافذ ہونے والے بلدیاتی قانون پر سخت تنقید ہوئی تھی مگر اب خبر یہ ہے کہ پنجاب کے گورنر پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما سردار سلیم حیدر خان نے اس قانون پر دستخط کر دیے، یوں اگر واقعی بلدیاتی انتخابات ہوئے تو ایک کمزور بلدیاتی نظام قائم ہوگا۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے تعلقات کے اچھے یا خراب ہونے کی ایک طویل تاریخ ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن ایک دوسرے کی حریف جماعتیں بھی رہیں اور پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو شہید اور مسلم لیگ ن کے رہنما میاں نواز شریف کے درمیان لندن میں ہونے والے میثاق جمہوریت کے بعد دونوں جماعتوں کے درمیان روایتی کشیدگی ختم ہوگئی تھی۔
اگرچہ جب 2008میں پیپلز پارٹی نے وفاق میں حکومت سنبھالی تو مسلم لیگ ن نے اس حکومت کی حمایت کی تھی اور مسلم لیگ ن کے کچھ رہنما یوسف رضا گیلانی کی وفاقی کابینہ میں شامل رہے۔ مگر سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی سے صدر زرداری کے انکار کے بعد مسلم لیگ ن نے حزب اختلاف کا کردار ادا کرنا شروع کیا۔ البتہ دونوں جماعتوں نے آئین میں کی جانے والی 18ویں ترمیم پر متفق ہوکر سیاسی رواداری کا ایک نیا ماڈل قائم کیا تھا۔ میاں نواز شریف دوبارہ وزیر اعظم بننے کے کچھ عرصے بعد مخالف قوتوں کے بچھائے ہوئے جال میں پھنس گئے اور پیپلز پارٹی میاں نواز شریف کی مخالفت پر ڈٹ گئی۔
یہی وہ وقت تھا جب تحریک انصاف کے بانی نے مقبولیت حاصل کرنا شروع کی تھی۔ 2018میں تحریک انصاف نے وفاق، پنجاب اور خیبر پختون خوا میں حکومتیں قائم کیں، جس کے بعد پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن ایک دوسرے کے قریب آ گئیں۔ اس اتحاد کی بناء پر 2022میں سابق وزیر اعظم بانی تحریک انصاف کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کا مشترکہ پروجیکٹ تھا۔ اس پروجیکٹ کی کامیابی کے بعد پہلے وفاق اور پھر پنجاب میں حکومتیں تو تبدیل ہوئیں مگر اس کے ساتھ ہی تبدیلی کی بڑی لہر نے پور ے ملک کو لپیٹ میں لے لیا۔ میاں شہباز شریف کی مخلوط حکومت میں بلاول بھٹو زرداری وزیر خارجہ کے عہدے پر فائز ہوئے تھے مگر اس دوران ملک زبردست معاشی بحران کا شکار ہوا۔
بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتیں آسمانوں تک پہنچ گئیں۔ پاکستان کے مانچسٹر فیصل آباد میں ہزارؤں لومز بند ہوگئے، بڑے پیمانے پر لوگ بے روزگار ہوئے۔ ڈالر کی قیمتیں بہت بڑھ گئیں، یوں ہر چیز مہنگی اور عام آدمی کی دسترس سے دور ہوگئی۔ تحریک انصاف نے اپنے قائد کی قیادت میں زبردست مزاحمتی تحریک منظم کی۔ سوشل میڈیا انفلوئنسرز نے حکومت کی ناکامیوں کا بھرپور پروپیگنڈہ کیا۔ یوں پنجاب، کے پی، بلوچستان اور پھر سندھ کے شہروں میں تحریک انصاف کا بیانیہ مضبوط ہوتا چلا گیا، اگرچہ نیب اور الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کی قیادت اور کارکنوں کی مزاحمت کو توڑنے کے لیے آپریشن کیا۔
تحریک انصاف کو انتخابی نشان سے محروم کردیا گیا مگر 2024کے انتخابات میں تحریک انصاف کے حمایت کردہ امیدواروں کو بڑی تعداد میں ووٹ ملے، البتہ کسی نہ کسی طرح وفاق اور پنجاب میں مسلم لیگ ن اور سندھ اور بلوچستان میں پیپلز پارٹی نے حکومتیں بنائیں، اس کے باوجود ان حکومتوں اور عوام کے درمیان فاصلے بہت گہرے رہے۔ ان حکومتوں کا شاہانہ انداز وہی رہا جس کے خلاف پروپیگنڈا کر کے تحریک انصاف نے مقبولیت حاصل کی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وفاقی حکومت کے معیشت کو بہتر بنانے، پنجاب کی حکومت کے روزانہ کے ترقیاتی منصوبوں کے افتتاح اور سندھ حکومت کی جانب سے صوبے کی تیز رفتار ترقی کے دعوؤں کے باوجود پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کو اسٹیبلشمنٹ کی بی ٹیم ہی سمجھا جارہا ہے۔
اگرچہ بلاول بھٹو زرداری نے یہ دعویٰ کردیا ہے کہ سندھ کا مقابلہ دیگر صوبوں سے نہیں بلکہ دنیا بھر کے ترقی کرنے والے ممالک سے ہے مگر دوسری طرف بلاول بھٹو وفاق پر مسلسل زور دے رہے ہیں کہ وفاقی حکومت اپنی اتحادی جماعت ایم کیو ایم کی کراچی کے لیے تجویز کردہ ترقیاتی منصوبوں پر عملدرآمد نہ کرے۔ کراچی کے عوام ٹوٹی ہوئی سڑکوں پر چنگ چی اور موٹر سائیکلوں پر سفر کرتے رہیں۔ پیپلز پارٹی کی قیادت یہ مطالبہ کر کے اپنی وفاق میں اتحادی جماعت ایم کیو ایم کو دیوار سے لگانے کی کوشش کررہی ہے مگر یہ قیادت اس حقیقت کو فراموش کررہی ہے کہ ایم کیو ایم اپنی بچی کچی مقبولیت سے محروم ہوگئی تو اس کی جگہ مذہبی انتہا پسند تنظیمیں لے لیں گی۔
بلاول بھٹو، آصف زرداری اور وزیر اعظم میاں شہباز شریف کے درمیان حالیہ ملاقات میں اس بات پر اتفاق ہوا تھا کہ پنجاب کے سیلاب زدگان کی مدد کے لیے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو استعمال کیا جائے، مگر جب پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز کی وزیر اعظم شہباز شریف سے علیحدہ ملاقات ہوئی اور وزیر اعلیٰ نے بتایا کہ پنجاب حکومت سیلاب زدگان کی مدد کے لیے اربوں روپے کے پروجیکٹ شروع کررہی ہے، اس لیے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے اضافی رقم مختص کرنے کی ضرورت نہیں ہے تو وزیراعظم نے اس بات پر اتفاق کر لیا، یوں پیپلز پارٹی سے کیا گیا، ایک وعدہ پھر فراموش کردیا گیا۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان پیدا ہونے والے فاصلے کا سارا فائدہ مخالف قوتوں کو ہی ہوگا مگر 26 ویں ترمیم کے نفاذ کے بعد عدلیہ کی بے بسی اور پیکا کے قانون کے نفاذ کے بعد ذرایع ابلاغ پر ہونے والی بندشوں سے جمہوری نظام مزید کمزور ہوگیا ہے۔ عوام کو اب ان جماعتوں کے آپس کے جھگڑوں سے کوئی سروکار نہیں رہا۔ اگرچہ وزیر دفاع خواجہ آصف مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی حمایت سے قائم ہونے والے ’’ہائبرڈ نظام‘‘ کو جمہوری نظام کی کامیابی قرار دیتے ہیں لیکن حقیقتاً اس نظام میں مقتدر سب سیاسی پارٹیاں اپنے وقار کو کھو رہی ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کے سائے پوری ریاست پر گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ دونوں جماعتوں کی قیادت کو حقیقت کا ادراک کرنا چاہیے۔