پنجاب میں کم عمر شادی کے خاتمے کیلیے فوری قانون سازی کا مطالبہ

لاہور: پنجاب اسمبلی کے ارکان، سرکاری حکام، قانونی ماہرین، علما، سول سوسائٹی اور ترقیاتی اداروں کے نمائندوں نے کم عمری کی شادی کے خاتمے کے لیے فوری قانون سازی، مؤثر عملدرآمد کا مطالبہ کردیا۔

لاہور کے مقامی ہوٹل میں ہونیوالے مشاورتی اجلاس کا اہتمام پارلیمانی ڈویلپمنٹ یونٹ کے زیرِ اہتمام، گروپ ڈویلپمنٹ پاکستان اور یو این ایف پی اے نے کیا جسے برطانیہ کے فارن، کامن ویلتھ اینڈ ڈویلپمنٹ آفس کی مالی معاونت حاصل تھی۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیئرپرسن چائلڈ پروٹیکشن بیورو اور رکن پنجاب اسمبلی سارہ احمد نے کہا کہ کم عمری کی شادی ثقافتی یا نجی معاملہ نہیں بلکہ ایک آئینی مسئلہ ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ہر سال پنجاب میں ہزاروں بچیاں کم عمری کی شادی کے باعث اپنے بچپن سے محروم ہو جاتی ہیں، ان کا کہنا تھا کہ چائلڈ پروٹیکشن بیورو اب تک 16 کم عمری کی شادی کے مقدمات میں مداخلت کر چکا ہے، جن میں اکثریت لاہور اور گرد و نواح کی ہے۔

پنجاب اسمبلی کے ارکان علی حیدر گیلانی، مہوش سلطانہ، رانا ارشد اور سردار اویس دریشک سمیت اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان، پراسیکیوٹر جنرل پنجاب فرہاد علی شاہ اور سیکریٹری لوکل گورنمنٹ فاروق احمد کھڑ سمیت دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔

اسلامی نقطۂ نظر پر گفتگو کرتے ہوئے سید معاذ شاہ نے کہا کہ شریعت کا مقصد کسی فرد کو نقصان پہنچانا نہیں بلکہ زندگی کا تحفظ ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ جسمانی اور ذہنی بلوغت کے بغیر شادی کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

علی حیدر گیلانی نے کہا کہ قانون سازی اسی وقت کامیاب ہوگی جب اس پر سختی سے عملدرآمد کیا جائے اور تمام سیاسی جماعتیں اس کی حمایت کریں۔

رکن اسمبلی مہوش سلطانہ نے کہا کہ سندھ، بلوچستان اور اسلام آباد میں کم عمری کی شادی کے خلاف قانون موجود ہے، پنجاب کو بھی اب پیچھے نہیں رہنا چاہیے۔

رانا ارشد نے بتایا کہ کم عمری کی شادی سے متعلق قانون سازی کابینہ میں زیرِ غور ہے اور لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کے لیے شادی کی کم از کم عمر 18 سال مقرر کرنے پر اتفاق کیا جا رہا ہے۔

یو این ایف پی اے کے کنٹری ہیڈ ڈاکٹر لوئے شبانیہ نے کہا کہ کم عمری کی شادی ماں اور بچے کی صحت کے لیے سنگین خطرہ ہے اور اسے مذہبی نہیں بلکہ عوامی مفاد کا مسئلہ سمجھا جانا چاہیے۔

اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان نے ارکان اسمبلی پر زور دیا کہ وہ کھل کر اور دلیل کے ساتھ اپنی رائے دیں تاکہ بچوں کے تحفظ کے لیے مؤثر فیصلے کیے جا سکیں۔

کانفرنس کے شرکا نے اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ کم عمری کی شادی کے خاتمے کے لیے قانون سازی، مؤثر عملدرآمد اور آگاہی مہم کو تیز کیا جائے گا تاکہ بچوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔

Similar Posts