غزہ میں پاکستانی فوج تعینات کی جاسکتی ہے، اسرائیلی میڈیا

اسرائیلی میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ غزہ میں دو سالہ جنگ کے بعد استحکام قائم کرنے کے لیے تجویز کردہ عالمی امن فورس میں پاکستان کا فوجی دستہ بھی شامل ہو سکتا ہے۔

اسرائیلی خبر رساں اداروں ”وائی نیٹ نیوز“ اور ”ٹائمز آف اسرائیل“ نے اپنی رپورٹس میں کہا ہے کہ اس فورس میں انڈونیشیا، آذربائیجان اور ممکنہ طور پر پاکستان کے فوجی شامل ہوں گے، جبکہ انڈونیشیا پہلے ہی اس مشن کے لیے فوج بھیجنے کی پیشکش کر چکا ہے اور آذربائیجان نے بھی آمادگی ظاہر کی ہے۔

سلطنتِ عثمانیہ واپس آگئی ہے؟ ٹرمپ کے سابق مشیر کی مسئلہ فلسطین پر ’تین ریاستی حل‘ کی متنازع تجویز

رپورٹس کے مطابق اسرائیلی کابینہ کی خارجہ و دفاعی امور کمیٹی کو بند کمرہ بریفنگ میں بتایا گیا کہ اس فورس کا مقصد غزہ میں انسانی امداد کی تقسیم کو منظم کرنا، مقامی پولیس فورسز کی تربیت کرنا اور مستقبل میں تشدد کے دوبارہ ابھرنے کو روکنا ہے۔


AAJ News Whatsapp

تاہم اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے واضح کیا ہے کہ اس فورس میں شامل افواج کا انتخاب اسرائیل ہی کرے گا اور اس میں شریک ممالک کے حوالے سے اسرائیل کی اپنی ترجیحات ہوں گی۔ مثال کے طور پر ترک فوجیوں کی شرکت مسترد کی گئی ہے۔

دوسری جانب وزیراعظم پاکستان کے معاونِ خصوصی رانا ثنا اللہ نے نجی ٹی وی پروگرام میں کہا کہ اگر غزہ میں امن قائم کرنے کے لیے اور فلسطینیوں کی مدد کے لیے پاکستان کو واقعی کوئی کردار ملے تو وہ اس سے بہتر بات نہیں سمجھتے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ اُن کی ذاتی رائے ہے اور اُن کے علم میں نہیں کہ حکومتِ پاکستان کو باضابطہ طور پر کوئی پیشکش ہوئی ہے یا نہیں۔

رانا ثنا نے کہا کہ پاکستان اُن آٹھ ممالک میں شامل ہے جنہوں نے اس بات کی حمایت کی ہے کہ غزہ میں استحکام لانا ضروری ہے اور وہاں سے غیر مناسب فوجی موجودگی کو ختم کیا جانا چاہیے۔

اسرائیل کی جانب سے جلا وطن کیے گئے فلسطینی قیدیوں کی آبادکاری کے لیے پاکستان بھی زیر غور

رپورٹس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ امریکی انتظامیہ، جو ”ٹرمپ کے 20 نکاتی منصوبے“ کے تحت عرب اور دیگر شراکت داروں کے ساتھ مل کر ایک عارضی انٹرنیشنل سٹیبلائزیشن فورس (آئی ایس ایف) تشکیل دینے کا کہہ رہی ہے، اس فورس کو جلد تعینات کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس فورس کا کام مقامی پولیس کی تربیت اور انسانی امداد کی تقسیم میں مدد کرنا بتایا جا رہا ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ اب تک پاکستان کی طرف سے کسی بھی قسم کا باضابطہ اعلان یا قبولیت سامنے نہیں آئی۔

Similar Posts