ان کے دھرنے کامیاب دھرنے تھے۔ بلکہ پاکستان میں کامیاب دھرنوں کا فارمولہ انھوں نے ہی پیش کیا۔ طویل دھرنوں کا فارمولہ بھی انھوں نے ہی پیش کیا۔ سیاست میں کنٹینر کو بھی طاہر القادری ہی لے کر آئے۔ وہ پاکستان کی قومی اسمبلی کے رکن بھی رہے ہیں۔ انھوں نے اپنی سیاسی جماعت پاکستان عوامی تحریک بھی بنائی۔ انھوں نے بڑے سیاسی اتحاد بھی بنائے۔ پھر ایسا بھی ہوا کہ ڈاکٹر طاہر القادری نے پاکستان کی سیاست سے ریٹائرمنٹ لے لی۔ انھوں نے عملی سیاست کو خیر باد کہ دیا۔
پاکستان میں ویسے تو سیاست سے ریٹائرمنٹ کا کوئی رواج نہیں ہے۔ یہاں آپ مرتے دم تک سیاست کرتے رہتے ہیں۔ آپ جتنے پرانے ہوتے جاتے ہیں سیاست میں اتنے ہی انمول ہو جاتے ہیں۔ سنیئرز کی سیاست میں بہت قدر ہے۔ سب سیاستدانوں کو دیکھ لیں، کسی نے سیاست سے ریٹائرمنٹ نہیں لی۔ لیکن ڈاکٹر طاہر القادری نے باقاعدہ عملی سیاست سے ریٹائرمنٹ لے لی ہے۔ وہ آٹھ سال سے پاکستان نہیں آئے۔ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ پاکستان کی سیاست پر کوئی تبصرہ نہیں کرتے۔ ہم نے کبھی ان کا کوئی بیان نہیں دیکھا۔ وہ اب میڈیا کو کوئی انٹرویو بھی نہیں دیتے۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پاکستان کی عوام سے ڈاکٹر طاہر القادری نے گوشہ نشینی کر لی ہے۔ وہ آجکل کینیڈا میں مقیم ہیں۔ حال ہی میں ٹورنٹو جانا ہوا۔ پرانے صحافی دوست اور بھائی بدر منیر چوہدری سے ملاقات ہوئی۔
لاہور میں ایک اردو اخبار میں وہ میرے ساتھ رپورٹر تھے۔ پھر چیف رپورٹر بھی بنے۔ آجکل کینیڈ ا میں مقیم ہیں۔ ہم نے دس سال اکٹھے کام کیا تھا۔ انھوں نے کینیڈ ا میں اپنے ٹی وی میں مجھے انٹرویو کے لیے بلایا۔ وہاں کافی گپ شپ رہی۔ پرانا وقت یاد کر کے ہم دونوں ماضی میں چلے گئے۔ میں نے پوچھا یہاں ڈاکٹر ظاہر القادری ہوتے ہیں۔ بندر منیر نے کہا میرے ہمسائے ہیں۔ اکثر ملاقات ہو جاتی ہے۔ بدر نے بتایا کہ میڈیا سے کم ملتے ہیں۔ اپنے تنظیمی کام کرتے رہتے ہیں۔ میں نے کہا میں چند دن یہاں ہوں۔ میں ملنا چاہتاہوں۔ میرا پیغام پہنچا دیں۔ بدر منیر چوہدری نے ایک ساتھی کو میرے سامنے فون پر کہا کہ پاکستان سے مزمل سہر وردی آئے ہیں۔ ملنا چاہتے ہیں۔ چند ہی لمحوں بعد جواب آگیا کہ اگلے دن ملنے آجائیں۔
میں ملاقات کے لیے ڈاکٹر طاہر القادری کے گھر پہنچ گیا۔ مجھے بتایا گیا کہ یہ ان کی رہائش گاہ نہیں لیکن ملاقات کے لیے وہ اس گھر کو ہی استعمال کرتے ہیں۔ ملاقات گرمجوشی سے شروع ہوئی۔ بطور رپورٹر میں ان کی بیٹ کور کرتا رہا ہوں۔ اس لیے کافی ملاقاتیں تھی۔ لیکن اب کئی برس سے کوئی ملاقات نہیں تھی۔ آٹھ سال سے تو وہ پاکستان ہی نہیں آئے۔ میں نے پوچھا کہ آپ آٹھ سال سے پاکستان نہیں آئے۔ انھوں نے کہا لکھنے کے کاموں میں اس قدر مصروف ہوں کہ پاکستان جانے کا وقت ہی نہیں ملا۔ لیکن اب جاؤں گا۔ بہت سال ہوگئے پاکستان نہیں گیا۔ سیاسی حالات پر بات شروع ہوئی۔ انھوں نے کہا میرا سیاست سے ریٹائرمنٹ کا فیصلہ اٹل ہے۔
میں اس کو واپس لینے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ بس ختم ۔ جتنا کام میرے حصہ کا تھے، میں نے کر دیا۔اب باقی کاموں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ بانی تحریک انصاف کے بارے میں بھی بات ہوئی۔ وہ بانی تحریک انصاف سے کوئی زیادہ خوش نظر نہیں آئے۔ میں نے کہا کوئی رابطہ۔ آپ نے تو اکٹھے دھرنے دیے ہیں۔ آپ دونوں کو تو سیاسی کزن بھی کہا جاتا تھا۔ وہ مسکرائے۔ اور پھر کہنے لگے جب تک وہ وزیر اعظم رہے، کوئی رابطہ نہیں تھا۔ بطور وزیر اعظم میری اور ان کی کوئی بات نہیں ہوئی۔ لیکن وزیر اعظم کے منصب سے ہٹنے کے بعد جب دوبارہ احتجاجی سیاست کی طرف آئے تو مجھے فون کیا تھا۔ شاید تب کئی سیٹوں پر ضمنی انتخاب بھی ہو رہے تھے۔ میں نے فون پر ہیلو کہتے ہی کہا کہ آپ کو میری یاد کیسے آئی۔ میں نے سانحہ ماڈل ٹاؤن پر ان کی حکومت کے رویہ کا ذکر کیا ، عوامی تحریک کے کارکنوں پر مقدمات ختم نہ کرنے پر گلہ کیا۔
ڈاکٹڑ طاہر القادری نے کہا کہ عمران خان نے کہا میں مجبور تھا۔ آپ ملیں گے تو بتاؤں گا۔ میری ٹیم سچ نہیں بتا رہی تھے اور کہا کہ میں آپ کو دوبارہ فون کرتا ہوں۔ پھر دوبارہ فون نہیں آیا۔ میں نے کہا کہ 2014میں آپ نے بانی تحریک انصاف کی سیاست کو بہت کندھا دیا تھا۔ آپ ساتھ نہ ہوتے تو دھرنے کامیاب نہ ہوتے۔ مسکرائے اور کہنے لگے۔ آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ لیکن انھوں نے اس کا خیال نہیں کیا۔
میں نے کہا کہ آپ کو انداذہ ہے کہ آپ استعمال ہوئے۔ وہ بھی اکٹھے جدو جہد کے حامی تھے۔ اس کے پیچھے کیا گیم پلان تھا مجھے نہیں معلوم۔میں نے کہا آجکل کیا کر رہے ہیں۔ ساتھ بیٹھے ایک ساتھی سے تعارف کروایا کہ یہ بھارت سے آئے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ بھارت کی تمام زبانوں میں ڈاکٹڑ طاہر القادری کی تصانیف کا ترجمہ ہو چکا ہے۔ دنیا کی تما م زبانوں میں ان کی تصا نیف کا ترجمہ ہو چکا ہے۔ انھوں نے گجراتی زبان میں کتابیں مجھے بھی دیں۔ انھوں نے کہا کہ میں اپنے کاموں میں مصروف ہوں۔ مجھے اکثر خبریں بھی نہیں معلوم ہوتیں۔ میں سوشل میڈیا پر نہیں ہوں۔ سوشل میڈیا نہیں دیکھتا۔ ٹی وی بھی نہیں دیکھتا۔ کوئی کچھ بتا دے تو معلوم ہو جاتا ہے۔ لیکن جاننے کی کوئی خاص دلچسپی بھی نہیں ہے۔ بس بہت کر لیا۔ میں نے کہا سوشل میڈیا کا شور نہیں سنا۔ کافی درد سر بنا ہوا ہے۔ کہنے لگے سنا ہے دیکھا نہیں۔ اللہ بچائے۔