وہ پنجاب یونیورسٹی میں”مقامی حقائق اور علاقائی مستقبل” کے موضوع پر منعقدہ عالمی کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
کانفرنس کی صدارت وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر محمد علی نے کی جبکہ بنگلہ دیش کے وزیر مملکت برائے خزانہ پروفیسر انیس الزمان چوہدری، بنگلہ دیش کے ہائی کمشنر محمد اقبال کاشف راٹھور، پروفیسر ڈاکٹر یامینہ سلمان، پروفیسر ڈاکٹر اخلاق حق سمیت فیکلٹی ممبران، بیورو کریٹس اور طلبا و طالبات کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
کانفرنس میں پروفیسر حبیب ظفراللہ اور پروفیسر نوید حنیف کے ویڈیو پیغامات بھی نشر کئے گئے۔وفاقی وزیر احسن اقبال نے کہا کہ دنیا تیزی سے بدل رہی ہے، ٹیکنالوجی، موسمیاتی بحران، آبادی کے دبائو اور جغرافیائی تبدیلیوں نے حکمرانی کے روایتی ڈھانچے کو چیلنج کر دیا ہے،ایسے میں وہی ممالک آگے بڑھیں گے جو اپنی سول سروس کو علم، مہارت، شفافیت اور عوامی خدمت کے اصولوں پر استوار کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کا موجودہ سول سروس ڈھانچہ برطانوی نوآبادیاتی دور کی باقیات ہے،جو اس وقت بنایا گیا جب مقصد قانون و نظم اور ٹیکس وصولی تھا،ترقی و تبدیلی نہیں۔آج کے دور میں ہمیں ایسے نظام کی ضرورت ہے جو استحکام کی بجائے جدت، مراتب کے بجائے اشتراک اور طریقہ کار کی بجائے نتائج کو ترجیح دے۔
احسن اقبال نے کہا کہ حکومت نے سول سروس اصلاحات کیلئے ایک جامع فریم ورک تیار کیا ہے جس کی بنیاد سمارٹ اصولوں پر رکھی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت سی ایس ایس امتحان میں بنیادی اصلاحات کر رہی ہے تاکہ اس کا محور انگریزی دانی کی بجائے تنقیدی سوچ،تجزیاتی صلاحیت اور پالیسی فہم ہو۔انہوں نے کہا کہ ہم نے انگریزی کو ترقی کی نہیں بلکہ اشرافیہ کے قبضے کا ذریعہ بنا دیا ہے،اس سوچ کو بدلنے کا وقت آ گیا ہے۔وفاقی وزیر نے کہا کہ خواتین، اقلیتوں اور پسماندہ علاقوں کی نمائندگی کو یقینی بنانے کیلئے مثبت اقدامات کئے جا رہے ہیں تاکہ سول سروس واقعی عوام سے جڑی ہوئی اور ان کے اعتماد کی حامل ہو۔
انہوں نے کہا کہ وزارتِ منصوبہ بندی نے جامعات، نجی شعبے اور حکومت کے درمیان عملی شراکت کیلئے پبلک پالیسی لیبز کے قیام کی تجویز دی ہے،جو پالیسی سازی کو تحقیق، ڈیٹا اور جدید ٹیکنالوجی سے جوڑیں گی۔
احسن اقبال نے کہا کہ حکومت نے ایک سات نکاتی تعلیمی فریم ورک تیار کیا ہے جس میں علم پر مبنی پالیسی سازی،مشترکہ تحقیق،پالیسی فیلو شپ پروگرامز، ڈیجیٹل گورننس میں جدت،مقامی حکومتوں کے حل،تربیتی ماڈیولز اور علاقائی تعاون شامل ہیں۔
انہوں نے جنوبی ایشیائی سطح پر تعاون کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ خطے کے مشترکہ مسائل جیسے موسمیاتی تبدیلی،غربت اور پانی کی قلت،سرحدوں سے ماورا ہیں،لہذا ایک ساوتھ ایشئین گورننس فریم ورک تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔
پروفیسر احسن اقبال نے کہا کہ آج کی دنیا میں گورننس کا عمل ٹیکنالوجی کی ترقی،عالمی باہمی انحصار اور سماجی توقعات میں تبدیلی کے باعث پہلے سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہو گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کی آبادی اب زیادہ نوجوان، شہری، تعلیم یافتہ اور ڈیجیٹل طور پر منسلک ہے اور عوام ایسی حکومت چاہتے ہیں جو زیادہ جواب دہ،شراکتی اور ٹیکنالوجی پر مبنی ہو۔
انہوں نے مزید کہا کہ جمہوریت کا پرانا ماڈل جس میں شہری ووٹ دیتے تھے اور پھر منتخب نمائندوں کے فیصلوں کے منتظر رہتے تھے،اب جدید دور میں قابلِ عمل نہیں رہا،کیونکہ اب لوگ باخبر اور با اختیار ہو چکے ہیں اور حقیقی وقت میں پالیسی سازی میں حصہ لینا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسلام انصاف، جواب دہی اور عوامی خدمت کے اصولوں پر مبنی ہے،قرآن مجید اور سیرتِ نبوی ﷺمیں حکمرانی کو امانت اور خدمت قرار دیا گیا ہے۔انہوں نے حضرت عمر ؓکے قول “اگر فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوکا مر گیا تو عمر جواب دہ ہوگا” کو یاد دلاتے ہوئے کہا کہ یہی اصول آج کے دور میں بھی ہماری رہنمائی کرتے ہیں۔
انہوں نے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے تاریخی قول کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یاد رکھو، تم ریاست کے خادم ہو، حکمران نہیں۔ تمہاری وفاداری ریاست پاکستان کے ساتھ ہونی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ یہی وہ وژن ہے جس کی روشنی میں حکومت سول سروس اصلاحات کو آگے بڑھا رہی ہے۔وفاقی وزیر نے کہا کہ موجودہ حکومت وزیراعظم محمد شہباز شریف کی قیادت میں سول سروس کو ایک جدید، میرٹ پر مبنی، شفاف اور عوامی خدمت پر مرکوز ادارے میں بدلنے کیلئے پرعزم ہے۔
انہوں نے کہا کہ کوئی بھی ملک صرف حکومت کے زور پر نہیں بدلتا، بلکہ جب ریاست، نجی شعبہ، جامعات اور سول سوسائٹی شراکت داری میں کام کریں تو حقیقی تبدیلی ممکن ہوتی ہے۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ یہ اصلاحات پاکستان کیلئے ایک نئے دورِ حکمرانی کا آغاز ثابت ہوں گی۔پروفیسر احسن اقبال نے اس بات پر زور دیا کہ اچھی حکمرانی کی جڑیں اسلامی تعلیمات میں گہرائی سے پیوست ہیں،جو انصاف، جواب دہی اور عوامی خدمت پر مبنی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جامعات کو گورننس میں جدت کیلئے تھنک ٹینک کے طور پر کردار ادا کرنا چاہیے اور علم پر مبنی ترقی کے مراکز بننا چاہیے۔
انہوں نے جامعات کیلئے کارکردگی کے سات نکاتی فریم ورک کا اعلان کیا،جس میں تعلیمی معیار،تحقیق و جدت،صنعت و اکیڈمی تعلقات،سماجی خدمت،ٹیکنالوجی کا استعمال،کارپوریٹ گورننس اور گریجویٹس کے معیار جیسے نکات شامل ہیں۔
اپنے خطاب کے اختتام پر انہوں نے ملک کی اشرافیہ سے اپیل کی کہ جہاں غریب عوام اب بھی پاکستان کے مستقبل پر یقین رکھتے ہیں،وہاں خوشحال طبقے کو بھی ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ آئیں ہم سب مل کر ٹیم پاکستان کے طور پر اس وژن کو حقیقت بنائیں۔کانفرنس سے بنگلہ دیش کے معاون خصوصی برائے خزانہ پروفیسر انیس الزمان، پاکستان میں بنگلہ دیش کے ہائی کمشنر محمد اقبال حسین اور پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد علی نے بھی خطاب کیا۔