جولائی 2024 میں ایک جھوٹی خبر پھیلی۔ خبر یہ تھی کہ ایک غیر قانونی تارکِ وطن نے بچوں کو چاقو مارا ہے۔ دی گارڈین اخبار نے واضح کیا کہ اس جھوٹ کو مصنوعی ذہانت (AI) اور اس کے الگورتھمز نے پھیلانے میں دیگر ذرائع کے ساتھ بنیادی و اہم کردار ادا کیا ہے۔ AI (مصنوعی ذہانت) نے مسلم تارکینِ وطن کی جعلی ویڈیوز اور تصاویر بنائیں۔ ان کی وجہ سے اقلیتی املاک پر حملے ہوئے۔
رپورٹیں تصدیق کرتی ہیں کہ AI نے نفرت انگیز مواد کو تیزی سے پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان واقعات سے ثابت ہوا کہ AI اب صرف ایک مشین نہیں ہے۔ یہ ایک طاقت بن چکی ہے جو ہماری سوچ بدل رہی ہے۔
آپ کی اسکرین: ہماری مرضی یا AI کی؟
آج ہم جو کچھ بھی دیکھتے ہیں، اس میں ہماری مرضی کم ہوتی ہے۔ یہ الگورتھمز کی خواہش زیادہ ہوتی ہے۔ ہمارا ہر کلک، لائیک، اور دیکھنا AI (مصنوعی ذہانت ) کی خوراک بنتا ہے۔ یہ الگورتھمز ہی طے کرتے ہیں کہ ہمیں کیا نظر آئے گا۔ اس کو الگورتھم فیڈ کہتے ہیں۔ فیس بک اور یوٹیوب مواد کو وقت کے حساب سے نہیں دکھاتے۔ وہ دیکھتے ہیں کہ آپ کس مواد سے جذباتی طور پر زیادہ جڑیں گے۔ ان کا مقصد آپ کو پلیٹ فارم پر زیادہ دیر قید رکھنا ہے۔ اس لیے وہ سب سے زیادہ متنازع اور جذباتی مواد آگے کرتے ہیں۔ اس طرح، AI ہماری سوچ کو آہستہ آہستہ تنگ کردیتی ہے۔ ChatGPT جیسے تخلیقی ٹولز بھی عام ڈیٹا کی بنیاد پر جواب دیتے ہیں۔ یوں، ہماری دنیا کا تصور ان کوڈز کے تابع ہو رہا ہے جن پر ہمارا کنٹرول نہیں رہا۔
فلٹر ببل: ایک بند دائرہ
کئی تحقیقات بتاتی ہیں کہ AI سسٹمز ایک ’’فلٹر ببل‘‘ (Filter Bubble) بنا دیتے ہیں۔ یہ معلوماتی قید کی طرح ہے۔ محقق ایلائی پیرائزر نے 2011 میں یہ تصور دیا۔ اس دائرے میں آپ کو صرف وہی معلومات ملتی ہے جو آپ کی پرانی سوچ سے ملتی ہے۔ رپورٹس کے مطابق، یہ دائرہ ہماری معلومات کو کم کردیتا ہے۔ اس سے ڈیجیٹل پولرائزیشن بڑھتی ہے۔ ہم مختلف خیالات سے محروم ہوجاتے ہیں۔ AI (مصنوعی ذہانت ) چپکے سے ہماری سوچ کو بدلتا ہے۔ وہ کوئی معلومات مسلط نہیں کرتا۔ وہ بس یہ فیصلہ کرتا ہے کہ ہمیں کیا دکھانا ہے اور کیا چھپانا ہے۔
AI کی غیر جانبداری کا جھوٹ
عام خیال ہے کہ AI سسٹمز سچے اور غیر جانبدار ہوتے ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ ان کو انسانوں کے دیے ہوئے ڈیٹا پر سکھایا جاتا ہے۔ ڈیٹا کی بنیاد پر ان میں تعصب بھی آجاتا ہے۔ MIT کی تحقیق سے پتا چلا کہ چہرے کی شناخت کا نظام ہلکی جلد والے مردوں کو زیادہ آسانی سے پہچانتا ہے۔ ہارورڈ یونیورسٹی نے بتایا کہ AI جذبات بھڑکانے والے مواد کو زیادہ دکھاتا ہے۔ یہ سارے ثبوت ایک بڑا سوال کھڑا کرتے ہیں: مصنوعی ذہانت کے زمانے میں ہماری سوچ کا مالک کون ہے؟
جھوٹا شعور: نقلی حقیقت
آج کا خطرہ صرف معلومات کی سمت بدلنا نہیں۔ اصل خطرہ معلومات پر ہمارا اعتماد ختم ہونا ہے۔ ہم ہر وقت اصلی اور نقلی میں فرق کرتے رہتے ہیں۔ ڈیپ فیک ٹیکنالوجیز اب جعلی آڈیوز، ویڈیوز اور تصاویر بناتی ہیں۔ عالمی فورم نے خبردار کیا ہے کہ Generative AI آنے والے برسوں میں گمراہ کن معلومات کا اہم ذریعہ بنے گا۔ جب ہم جھوٹے مواد کے عادی ہوتے ہیں تو ہم ’’منظر کا معاشرہ‘‘ بن جاتے ہیں۔ یہاں نقلی حقیقت اصلی سے مل جاتی ہے۔ اصل خطرہ AI (مصنوعی ذہانت ) کی چالاکی نہیں۔ یہ ہماری سستی و کاہلی ہے کہ ہم تصدیق نہیں کرتے۔ ایک طرح سے ہم اپنا پورا شعور الگورتھمز کے حوالے کرچکے ہیں۔
اپنی سوچ کو واپس لیں
مصنوعی ذہانت اب صرف مددگار نہیں، یہ ہماری سوچ کا ایک اور ذریعہ بن چکی ہے۔ علم کا کنٹرول ہمارے دماغ سے ڈیجیٹل سسٹمز کو منتقل ہوگیا ہے۔ اس انحصار سے ہماری آزاد سوچ کم ہورہی ہے۔ ہمارا شعور زیادہ شکار ہورہا ہے۔ AI سسٹمز حقیقت کو نہیں دکھاتے، وہ صرف توجہ حاصل کرنے کے اصول پر کام کرتے ہیں۔ حل ٹیکنالوجی سے دور بھاگنا نہیں۔ ہمیں تنقیدی سوچ کو واپس لانا ہوگا۔ ہمیں AI (مصنوعی ذہانت ) کی ہر تجویز پر سوال اٹھانا ہوگا۔ آج کا بڑا سوال یہ ہے: کیا ہماری سوچ واقعی ہماری اپنی ہے، یا وہ جو الگورتھمز نے ہمیں سکھائی ہے؟
(نوٹ: یہ مضمون محقق عکرمہ کالو کے شائع شدہ عربی بلاگ کا ترجمہ ہے، جس میں صرف تعارف اور اضافی وضاحتوں کے ذریعے حالاتِ حاضرہ کا سیاق و سباق شامل کیا گیا ہے۔ اس بلاگ میں پیش کی گئی بنیادی معلومات اور فکری ڈھانچہ عکرمہ کالو کی تحقیق پر مبنی ہے۔)
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔