وزارت خزانہ کی کھڑکیوں کے پار ایک فائل جوکہ قرضوں کے بارے میں تھی، ایک عدد کراہ رہی تھی کہ 84 ہزار ارب روپے کا قرض۔ یہ وہ عدد 84 ہے جو کہ گزشتہ برس 83 تک رہا اور ایک سال کے بعد 84 ہزار ارب روپے چنگھاڑتا ہوا نمودار ہوا، جسے کوئی محسوس کرے یا نہ کرے غریب عوام محسوس کر رہے ہیں اور سہم بھی رہے ہیں۔ گزشتہ ایک سال میں ایک ہزار ارب روپے کا اضافہ ظاہر کر رہا ہے کہ اس میں سے بیرونی قرضوں کا تناسب 32 فی صد سے زائد ہے۔
اس کا مطلب ہے کہ اس کی ادائیگی کے لیے اپنی پالیسی اپنی کرنسی کی گراوٹ اور کبھی کبھی اپنی خود داری بھی داؤ پر لگا رہے ہیں۔ یہاں پر یہ بتایا جاتا ہے کہ پاکستان میں یہ تناسب GDP کا 70 فی صد سے کم ہو کر 60.8 فی صد تک آنے کی امید ہے۔ جی ڈی پی کے یہ اندازے ہیں جوکہ 70 فی صد سے کم کرکے بتایا جا رہا ہے، درحقیقت قرض تو کم نہیں ہو رہا ہے۔ صرف تناسب کو بہتر دکھانے کی کوشش ہے کیوں کہ آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان کے قرضے کی پالیسی ’’ہائی رسک زون‘‘ میں داخل ہو چکے ہیں۔ جہاں تک شرح سود کی بات ہے تو جیسے ہی شرح سود میں اضافہ ہوتا ہے ہر نئے دن پرانے قرض کی قسط مزید بھاری ہو جاتی ہے۔
پاکستان کے زیادہ تر قرضے قلیل مدتی پالیسی کے ہیں جنھیں بار بار ری فنانس کرنا پڑتا ہے یعنی پرانے قرضوں کی قسط نئے قرضے کی قسط سے ادا کی جاتی ہے۔ اس طرز عمل نے معیشت کو ری فنانسنگ کے جال میں قید کردیا ہے۔
اور یہ سب ایسا منحوس چکر ہے کہ کوئی شخص ایک ادھار چکانے کے لیے دوسرا ادھار لے پھر تیسرا، پھر چوتھا قرض بھی، مختلف بھاری شرح سود کے ساتھ لینے پر مجبور ہو جاتا ہے، اگر شرح سود بڑھتی ہے تو ڈالرکا ریٹ بڑھتا ہے تو سمجھیں بجٹ توازن سے لے کر عام آدمی کی روٹی پانی تک سب کچھ لرز کر رہ جاتا ہے۔
حکومت عوام کے نام پر قرض لے کر خوب اسے خرچ بھی کر رہی ہے لیکن جس کے نام پر قرض لیا جا رہا ہے وہ مفلوک الحال ہے، اس مزدورکی ہتھیلی اب بھی خالی ہے، ساتھ ہی ڈالر کی رسد بھی کم ہو جاتی ہے اور ڈالر کی طلب بڑھ جاتی ہے۔ کراچی کی بندرگاہ پر جب ایک درآمدی سامان کے کنٹینر کھلتے ہیں تو ڈالر کی طلب بڑھ جاتی ہے اور ہر قرض کی ادائیگی پر ڈالر کی اونچی اڑان روپے کو گرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ اس طرح اب پاکستان کا ہر شہری قرض دار ریاست کے شہری کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ اب حکومت کے پاس اختیار کم ہے اور مالیاتی اداروں کے پاس اختیارات زیادہ ہیں۔ یہ وہ حقیقت ہے کہ اب عالمی ادارے سے معاہدہ کرتے کرتے اپنے نفع نقصان کے بارے میں سوچنے سے بڑھ کر عالمی اداروں کے کہنے پر عمل کیے بغیر کچھ حاصل نہیں۔
قرض ایک ایسا منحوس چکر ہے جس میں رہ کر کوئی قوم فلاح و بہبود حاصل نہیں کر سکتی ہے۔ ہر سال بجٹ میں نئے وعدے کیے جاتے ہیں، نئے نعرے متعارف ہوتے ہیں، نئی اسکیموں کے تبصرے ہوتے ہیں لیکن دراصل سال کے خاتمے تک نہ اکثر اسکیموں پر عمل درآمد شروع ہوتا ہے اور نہ ہی تکمیل کی طرف جاتے ہیں۔ اس طرح اسکیمیں تو ختم ہو جاتی ہیں لیکن ادھوری چھوڑ کر۔
قرض لینا بدشگونی ہے۔ حکومت کو اپنے اخراجات کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔ لوگوں کو پہلے پہل بہت ہی کم تنخواہیں ملتی تھیں، پھر بھی اس میں سے بھی بچت کر لیتے تھے اور یہ بچت مجموعی طور پر بڑے سے بڑے سرمائے کی شکل میں نمودار ہوتی ہے اور یہ سرمایہ بڑے بڑے کارخانہ دار تاجر حاصل کرتے ہیں اور کم شرح سود کی ادائیگی پر یہ رقوم جوکہ بینکوں میں جمع ہوتی ہیں اپنے کام میں لاتے ہیں۔
اس طرح سے رقوم کی تشکیل ہوتی رہتی ہے۔ انھی رقوم کو حکومت قرض لے کر لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے خرچ کرتی رہتی ہے اور عوامی منصوبوں کے لیے زیادہ رقوم اکٹھی ہو جاتی ہیں، اگر حکومت اپنے غیر ضروری اخراجات کو کم کر دے تو ایسی صورت میں کچھ رقوم کی بچت ہو سکتی ہے اور حکومت کو بھی اپنی روزمرہ ضروریات، اخراجات کے لیے بہت زیادہ رقوم لینے کی ضرورت نہ پیش آئے۔ اگر مراعات یافتہ طبقے کے لیے حکومت اپنی مراعات میں کمی کر دے تو بھی ایسی صورت میں اچھی خاصی بچت ہو سکتی ہے، لہٰذا یہ بات اگر مدنظر رکھی جائے کہ غریب عوام اتنا زیادہ قرض لینے کی متحمل نہیں ہو سکتے اور ان کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی لہٰذا اخراجات کنٹرول کیے جائیں۔