آؤٹ آف سلیبس

لاہور میں فلموں کے عروج کے زمانے میں ایک سینما ہوتا تھا‘ اس دور میں فلم کا ٹکٹ حاصل کرنا شیر کی مونچھ کا بال توڑنے سے مشکل ہوتا تھا‘ سینما کے سامنے چھوٹی سی کھڑکی ہوتی تھی جس کے سامنے سیکڑوں لوگ قمیضیں اتار کر ایک دوسرے سے بھڑ رہے ہوتے تھے اور جس کا ہاتھ کھڑکی کے اندر پہنچ جاتا تھا وہ مٹھی کھول دیتا تھا‘ اس میں پانچ یا دس روپے کا چڑمڑ نوٹ ہوتا تھا‘ ٹکٹ کیپر نوٹ لے کر مٹھی میں ٹکٹ داب دیتا تھا اور وہ شخص جیسے تیسے ہاتھ کھینچ کر باہر نکال لیتا تھا‘ وہ اس کے بعد قمیض پہنتا تھا اور فاتح کی طرح سینما ہال میں داخل ہو جاتا تھا‘ انتظامیہ ٹکٹ بلیک بھی کرتی تھی‘ یہ اپنے عزیزوں‘ دوستوں یا ملازموں کو پچاس ساٹھ ٹکٹ دے دیتی تھی اور یہ لوگ ہال کے سامنے کھڑے ہو کر ’’دس کا بیس‘‘ کی سرگوشیاں کرتے رہتے تھے۔

 اس کا مطلب ہوتا تھا تم اگر دس روپے کے ٹکٹ کے بیس روپے ادا کردو تو کھڑکی پر ذلیل ہونے کے بجائے آسانی سے ہال میں داخل ہو سکتے ہو‘ صدر آصف علی زرداری پر آج بھی مخالفین ٹکٹ بلیک کا الزام لگاتے ہیں‘ یہ الزام غلط ہے تاہم یہ درست ہے آصف علی زرداری کے والد حاکم علی زرداری کراچی میں بمبینو سینما کے مالک تھے اور یہ اس زمانے میں ایشیا کا سب سے بڑا اور جدید سینما ہوتا تھا‘ آصف علی زرداری حاکم علی زرداری کے اکلوتے صاحب زادے تھے لہٰذا اتنے امیر شخص اور ایشیا کے سب سے بڑے سینما کے مالک کو ٹکٹ بلیک کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ یہ الزام بھی دیگر الزامات کی طرح بے بنیاد اور لغو ہے‘ آصف علی زرداری کو بچپن میں اداکاری کا شوق تھا اور انھوں نے1969 میں سالگرہ نام کی فلم میں چائلڈ اسٹار کی حیثیت سے کام بھی کیا تھا‘ فلم کا وہ کلپ آج بھی موجود ہے‘ میں موضوع کی طرف واپس آتا ہوں۔

 لاہوکے اس سینما کے سامنے شائقین کا بے انتہا رش ہوتا تھا‘ ایک بار مقامی اخبار کا کوئی رپورٹر اپنے دوست کو فلم دکھانے لے گیا‘ وہ جیسے تیسے کھڑکی تک پہنچا‘ اس زمانے میں صحافیوں کو اخبار کا کارڈ دکھا کر ٹکٹ میں رعایت ملتی تھی‘ صحافی نے اپنا کارڈ دکھایا لیکن ٹکٹ کیپر نے اسے لفٹ نہیں کرائی‘‘ صحافی کی اس سے توں توں میں میں ہو گئی یہاں تک کہ صحافی کو غصہ آ گیا‘ وہ کھڑکی سے پیچھے ہٹا اور زور زور سے چیخنے لگا ’’تم نے قائداعظم کو گالی کیوں دی؟‘‘ لوگ ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے پہلے سے ناراض تھے۔

 انھوں نے قائداعظم کا نام سنا تو فوراً اس کے گرد اکٹھے ہو گئے اور اس سے گستاخی کے بارے میں پوچھنے لگے‘ صحافی نے چلاتے ہوئے کہا‘ اس نے میرا نوٹ نیچے پھینک کر کہا‘ اٹھاؤ اپنے قائداعظم کو اور دفع ہو جاؤ‘ میں قائداعظم کی یہ بے عزتی برداشت نہیں کر سکتا‘ لوگ اس کی حمایت میں کھڑے ہو گئے اور سینما کی انتظامیہ کے خلاف نعرہ بازی شروع کر دی‘ انتظامیہ کے غنڈوں نے انھیں دبانے اور دھمکانے کی کوشش کی جس سے معاملہ مزید بگڑ گیا اور لوگوں نے سینما پر حملہ کر دیا‘ہجوم نے آدھ گھنٹے بعد سینما کو آگ لگا دی اور یوں ایک ٹکٹ اور قائداعظم کے حوالے نے لاکھوں روپے (اس زمانے میں یہ رقم کروڑوں کے برابر ہوتی تھی) کے سینما کو جلا کر راکھ کر دیا۔

وہ پرانا زمانہ تھا‘ قائداعظم کا نام اس دور میں مقدس ہوتا تھا‘لوگ قائد سے اس قدر محبت کرتے تھے کہ کوئی بھی شخص ان کا حوالہ دے کر کسی کو بھی گستاخ اور قابل گردن زنی قرار دے سکتا تھا لیکن پھر وقت بدلہ‘ افغان وار شروع ہوئی اور قائداعظم اور بانیان پاکستان پیچھے چلے گئے اور مذہب بطور ہتھیار استعمال ہونے لگا‘ قائداعظم کا پاکستان کس قدر کھلا ڈھلا اور برداشت سے لبالب تھا آپ اس کا اندازہ چند حقائق سے لگا لیجیے‘ آل انڈیا مسلم لیگ سر آغا خان (سوم) کے مشوروں پر بنائی گئی تھی اور یہ اپنے انتقال 1957 تک اس کے تاحیات صدر رہے تھے‘ ہندوستان کے مسلمانوں کی اکثریت بریلوی سنی تھی لیکن مسلم لیگ کے 80فیصد لیڈر اہل تشیع تھے۔

 قائداعظم‘ لیاقت علی خان‘ راجہ صاحب محمودہ آباد اور سردار عبدالرب نشتر کے عقائد ڈھکے چھپے نہیں ہیں لیکن کسی بریلوی سنی کو ان کے کے عقیدے پر کوئی اعتراض نہیں تھا‘ پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان تھے‘ وہ ڈکلیئرڈ قادیانی تھے لیکن پرفارمنس میں آج تک ان کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکا ’’ مسئلہ فلسطین کا حل صرف فلسطینی ریاست ہے‘‘ اقوام متحدہ میں یہ آواز سب سے پہلے سر ظفر اللہ خان نے لگائی تھی اور یہ پاکستانی ڈیسک سے آئی تھی‘ عربوں کی آزادی میں بھی ان کا بہت بڑا ہاتھ تھا‘ پاک فوج کے پہلے دو چیف جنرل فرینک میسوری اور جنرل ڈگلس گریسی انگریز اور کرسچین تھے‘ پاکستان ائیرفورس کے پہلے چار چیف عیسائی اور گورے تھے‘ ائیرمارشل اصغر خان 1957 میں ائیرفورس کے پہلے پاکستانی چیف بنے لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں پاک فوج ہو یا پاک فضائیہ اس کی بنیاد کرسچین گوروں نے رکھی تھی۔

 پاکستان  کے لیے قانون بنانے کا فریضہ ہندو جوگیندر ناتھ منڈل نے نبھایا تھا‘ یہ پاکستان کے پہلے وزیر قانون تھے‘ پاکستان کے چوتھے چیف جسٹس اے آر کارنیلیس تھے‘ یہ 1960سے 1968 تک آٹھ سال چیف جسٹس رہے‘ یہ فلے ٹیز ہوٹل میں رہتے تھے‘ آپ کو پاکستان کے پہلے تین مسلمان چیف جسٹس کے نام یاد نہیں ہوں گے لیکن جسٹس کارنیلیس کا نام آج بھی فلے ٹیز ہوٹل کے اس کمرے کے دروازے پرلکھا ہے جس میں وہ رہائش پذیر رہے تھے‘ پاکستان میں سپارکو کی بنیاد پولش پائلٹ جے ایم تورووچ نے رکھی تھی‘ وہ کراچی میں رہا اور ونگ کمانڈر‘ گروپ کیپٹن‘ ائیرکموڈور اور اسسٹنٹ چیف آف ائیراسٹاف کی حیثیت سے پاک فضائیہ میں خدمات سرانجام دیتا رہا‘ اس کا نک نیم ’’ولادی‘‘ تھا‘وہ 1980 میں روڈ ایکسیڈنٹ میں فوت ہوا اور کراچی میں مدفون ہوا۔

 اس کی بیوی بھی پوری زندگی پاکستان میں رہی‘ اس کے انتقال کے برسوں بعد پولینڈ کی خفیہ سرکاری دستاویزات میں انکشاف ہوا پولش خفیہ ایجنسی نے اسے پاکستان کے خلاف جاسوس بنانے کی کوشش کی لیکن اس نے نہ صرف انکار کر دیا تھا بلکہ وہ اس آفر کے بعد پولینڈ نہیں گیاتھا‘ آپ ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجیے کیا یہ سب کچھ آج ممکن ہے؟ جی نہیں ‘ یہ صرف قائداعظم کے اس پاکستان میں ممکن تھاجس میں لوگوں کو مذہب‘ عقائد اور مسلک کی بنیاد پر نہیں پرکھا جاتا تھا ان کا خلوص‘ نیت اور مہارت دیکھی جاتی تھی لہٰذا اگر کوئی اس زمانے میں سینما کے سامنے کھڑے ہو کرقائداعظم کے نام پر جھوٹ بھی بول دیتا تھا تو لوگ سینما جلا دیتے تھے لیکن پھر پاکستان بدل گیا اور یہاں یونیورسٹی آف نبراسکا کا تیار کردہ دینیاتی نصاب آ گیا‘ ایک ایسا مذہبی نصاب جس میں ہر دوسرا فرقہ کافر ہے اور مسلمان‘ مسلمان کے پیچھے نماز پڑھنے کے لیے تیار نہیں‘جس میں لوگ نماز کے دوران ہاتھ کہاں باندھتے ہیں جیسے تخلیقی اور آفاقی مسائل پر ایک دوسرے سے دست وگریبان ہیں۔

 آپ یونیورسٹی آف نبراسکا کے اسکالرز کا کمال دیکھیے‘ طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی9اکتوبرکو بھارت جاتے ہیں تو بھارتی حکومت انھیں دارالعلوم دیوبند کا وزٹ کراتی ہے‘ بھارتی حکومت کو کس نے بتایا مسلمان فرقوں میں تقسیم ہیں اور طالبان دیوبندی ہیں‘ یہ سب 1980کی دہائی اور یونیورسٹی آف نبراسکا کی تعلیمات کا کمال تھا لہٰذا ہم اگر آج پاکستان کی تاریخ کا جائزہ لیں تو یہ دو حصوں میں تقسیم ملے گی۔

 قائداعظم کا پاکستان اور جنرل ضیاء الحق کا پاکستان‘ آپ اگر میری تھوڑی سی جسارت برداشت کر لیں تو پاکستان میں اسلامی سیاست کے بھی دو ورژن ہیں‘ قائداعظم کا اسلامک ورژن اور جنرل ضیاء الحق کا اسلامک ورژن‘ قائداعظم کے ورژن میں خلوص‘ میرٹ اور سچائی تھی جب کہ جنرل ضیاء الحق کے ورژن نے ایک ایسا معاشرہ جنم دیا جو منافقت‘ نعرے بازی اور جھوٹ کے ستونوں پر کھڑا ہے اور اس پاکستان کے لیے قائداعظم غیر ضروری اور غیر متعلقہ ہو چکے ہیں‘یہ مسنگ اور آؤٹ آف سلیبس ہیں اگر میری بات غلط ہے تو آپ پورے ملک میں قائداعظم کی کوئی ایک عادت یا کوئی ایک روایت دکھا دیجیے جس پر عمل ہو رہا ہو‘ قائداعظم کے ساتھ ہمارے صرف دو تعلق رہ گئے ہیں‘ ان کی تصویر سرکاری دفتروں کی دیوار پر لگتی ہے یا پھر یہ نوٹ پر چھاپی جاتی ہے‘ آپ کو اگر قائد اس کے علاوہ کسی جگہ دکھائی دیں تو پلیز مجھے ضرور اطلاع کیجیے گا۔

 ہم مانیں یا نہ مانیں لیکن یہ حقیقت ہے اصل پاکستان افغان وار میں ختم ہو گیا تھا اور اس کی جگہ ایک ایسے پاکستان نے جنم لے لیا تھا جس کی بنیاد یونیورسٹی آف نبراسکا کے ادارے’’سینٹر فارافغانستان اینڈ ریجنل اسٹڈیز‘‘نے رکھی تھی‘ نبراسکا کے اس کمال کے نتیجے میں 2025 میں دہشت گردی کے چار ہزار تین سو 73 واقعات پیش آئے جن میں 1073 لوگ شہید ہوئے جن میں فوج کے 584 جوان اور افسر ‘ باقی اداروں کے 133 اور 356 سویلین ہیں‘ فوج دہشت گردوں کے خلاف روزانہ 208 آپریشن کرتی ہے‘ سال میں کل 62 ہزار ایک سو 13 آپریشن ہوئے‘ ان میں 1667 دہشت گرد مارے گئے۔

 ان میں 128 افغان شہری تھے اور یہ تمام حملے (4373) افغانستان سے کیے گئے تھے اور ان میں طالبان حکومت براہ راست ملوث تھی لیکن طالبان اس کے باوجود ہمارے بھائی‘ مجاہد اور اسلام کے سپاہی ہیں‘ پشاور میں30 جنوری 2023 کو پولیس لین کی مسجد پر حملہ ہوا جس میں 93پولیس اہلکار اور افسرنماز پڑھتے ہوئے شہید ہو گئے لیکن مارنے والے مجاہد اورمرنے والے اہلکاروں کوطالبان کیا کہتے ہیں، اسے دہرانے کی ضرورت نہیں ہے ‘ یہ اسلام کا کون سا ورژن ہے؟ اور اگر یہ درست ہے تو پھر قائداعظم کا اسلام کیا تھا؟اور اگر قائداعظم غلط تھے تو پھر ہم ان کی جگہ ملاعمر یا ملاہیبت اللہ کی تصویر کیوں نہیں لگا دیتے تاکہ ہم کم از کم آئیڈیالوجی کے بحران سے تو باہر آ جائیں‘ہم کتنے باکمال لوگ ہیں‘ ہم لاکھ لاشیں اٹھانے کے بعد بھی آنکھیں کھولنے کے لیے تیار نہیں ہیں‘ واہ کیا بات ہے!

Similar Posts