درحقیقت پاکستان میں آبی وسائل کو موسمیاتی تبدیلی سے شدید خطرات لاحق ہیں، جس سے پانی کی قلت بڑھ رہی ہے۔ پانی کی پالیسی اور انتظام کے مضمرات دور رس ہیں۔ پاکستان زرعی پیداوار اور پانی کی فراہمی کے لیے سندھ طاس آبپاشی کے نظام (IBIS) پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے، لیکن آبی وسائل کی تقسیم اور دستیابی کو موسمی نمونوں میں تبدیلی، جیسے کہ بارش اورگلیشیئر پگھلنے سے خطرہ لاحق ہے۔
عالمی بینک کی تازہ ترین رپورٹ نے پاکستان کے لیے ایک سنگین خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ عالمی آبی نگرانی کی اس پہلی رپورٹ کے مطابق، پاکستان ان چھ ممالک میں شامل ہے جہاں زرعی پانی کے غیر مؤثر استعمال کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ یہ صورتحال نہ صرف ملکی سطح پر آبی بحران کو گہرا کر رہی ہے بلکہ دنیا بھر میں سالانہ 324 بلین کیوبک میٹر میٹھے پانی کے ضیاع میں پاکستان کا بھی ایک نمایاں حصہ ہے۔
یہ اعداد و شمار اس امر کی عکاسی کرتے ہیں کہ پاکستان میں پانی کے انتظام، پالیسی اور زرعی حکمتِ عملیوں میں بنیادی خامیاں موجود ہیں جو مستقبل میں معیشت، خوراک کی سلامتی اور عوامی فلاح و بہبود کے لیے شدید خطرات پیدا کر سکتی ہیں۔پاکستان کی معیشت کا انحصار بڑے پیمانے پر زراعت پر ہے اور زراعت کا انحصار سندھ طاس آبپاشی کے نظام پر ہے، مگر یہ نظام اب موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے شدید طور پر متاثر ہو رہا ہے۔
درجہ حرارت میں اضافہ، برفانی تودوں کا تیزی سے پگھلنا اور بارش کے غیر متوقع اور بے ترتیب نمونے آبی وسائل کے بہاؤ اور دستیابی میں غیر یقینی صورتحال پیدا کر رہے ہیں۔ نتیجتاً بعض علاقوں میں سیلاب آتے ہیں تو بعض میں خشک سالی کی شدت بڑھ جاتی ہے۔ یہ غیرمتوازن صورتحال کسانوں کے لیے پیداوار کی منصوبہ بندی کو مشکل بنا رہی ہے اور دیہی معیشت پر براہِ راست دباؤ ڈال رہی ہے۔
پاکستان میں فی کس پانی کی دستیابی خطرناک حد تک کم ہو چکی ہے۔ عالمی معیار کے مطابق کسی ملک میں فی کس سالانہ پانی کی دستیابی 1000 کیوبک میٹر سے کم ہو جائے تو اسے ’’آبی قلت‘‘ کا شکار ملک سمجھا جاتا ہے، اور پاکستان اس حد سے کافی نیچے جا چکا ہے۔ شہروں میں تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی، غیر منصوبہ بند شہری پھیلاؤ اور صنعتوں میں پانی کے غیر مؤثر استعمال نے اس بحران کو مزید شدید کر دیا ہے۔ دیہی علاقوں میں پرانے آبپاشی کے نظام، کھالوں سے ضایع ہونے والا پانی اور جدید ٹیکنالوجی کے فقدان نے صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پانی کو محض ایک قدرتی وسیلہ نہیں بلکہ ایک قومی اثاثہ سمجھا جائے۔ پانی کے تحفظ کے لیے قومی سطح پر ایک مربوط حکمتِ عملی تیار کی جائے جس میں پالیسی، تحقیق، ٹیکنالوجی اور عوامی آگاہی کو یکجا کیا جائے۔ جدید آبپاشی تکنیکوں جیسے ڈرِپ اور اسپرنکلر سسٹم کے فروغ کے ذریعے پانی کے ضیاع کو نمایاں طور پر کم کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح فصلوں کے انتخاب میں بھی تبدیلی لانا ہوگی، ایسی فصلیں اگانے کی ضرورت ہے جو کم پانی میں زیادہ پیداوار دے سکیں۔
پاکستان کو اپنے آبی انفرا اسٹرکچر میں بھی بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنی ہوگی۔ پرانے ڈیموں اور نہروں کی مرمت، نئے آبی ذخائر کی تعمیر اور زمینی پانی کے مؤثر استعمال کے لیے ریگولیشنز ناگزیر ہیں۔ شہروں میں پانی کے دوبارہ استعمال (ری سائیکلنگ) کے منصوبے، بارش کے پانی کو محفوظ کرنے کے نظام اور نکاسی کے مؤثر انتظام جیسے اقدامات بھی ضروری ہیں۔
دوسری جانب پاکستان میں ماحولیاتی آلودگی ایک ایسا سنگین مسئلہ بنتا جا رہا ہے جو نہ صرف انسانی صحت کے لیے خطرناک ہے بلکہ معاشی، سماجی اور قدرتی نظاموں کے لیے بھی تباہ کن اثرات مرتب کر رہا ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں ملک کے بڑے شہروں کی فضاء میں دھوئیں، گردوغبار، شور اور زہریلے مادوں کی مقدار میں جس تیزی سے اضافہ ہوا ہے، وہ اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ ہم بطور قوم اپنی ذمے داریوں سے غافل ہو چکے ہیں۔
ماحولیاتی بحران اب کسی دور دراز کے خطرے کا نام نہیں بلکہ یہ ہمارے گھروں، سڑکوں، بازاروں اور سانسوں تک پہنچ چکا ہے۔ لاہور، کراچی، فیصل آباد، پشاور اور راولپنڈی جیسے شہر آج دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں شامل ہیں۔ اس تشویشناک صورتِ حال کے پیچھے متعدد وجوہات ہیں، مگر سب سے بنیادی وجہ عوام میں ماحولیاتی شعور کی شدید کمی، سرکاری محکموں کی ناقص کارکردگی اور وزارتِ ماحولیات کی اہداف کے حصول میں ناکامی ہے۔
پاکستان میں عام شہری ابھی تک یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ ماحول صرف درختوں، ہوا یا پانی کا نام نہیں بلکہ یہ زندگی کے تسلسل کی بنیاد ہے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ ہمارے تعلیمی نظام میں ماحولیات کو محض ایک اضافی مضمون سمجھا جاتا ہے، جسے نہ سنجیدگی سے پڑھایا جاتا ہے اور نہ ہی اس پر عملی آگاہی دی جاتی ہے۔ بچے اسکولوں میں رٹے لگاتے ہیں مگر انھیں یہ نہیں بتایا جاتا کہ فضائی آلودگی کے اثرات کیا ہیں، پلاسٹک کے استعمال سے زمین کو کیا نقصان پہنچتا ہے یا گاڑیوں سے خارج ہونے والے دھوئیں کو کیسے کم کیا جا سکتا ہے۔ عوامی شعور کی یہ کمی عملی زندگی میں اور زیادہ نمایاں ہو جاتی ہے۔
گلیوں میں کچرا پھینکنا، نالیوں کو بند کرنا، گاڑیوں کا دھواں کھلے عام چھوڑنا، شور شرابے کو معمول سمجھنا، پلاسٹک کے تھیلے بے دریغ استعمال کرنا، یہ سب عادات اجتماعی طور پر ماحولیاتی تباہی میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔ کوئی شہری یہ سوچنے کی زحمت نہیں کرتا کہ اس کے ایک غیر ذمے دارانہ عمل سے پورے علاقے کا ماحولیاتی توازن متاثر ہو سکتا ہے۔دوسری طرف اگر سرکاری محکموں کی کارکردگی پر نظر ڈالی جائے تو صورتحال مزید افسوس ناک نظر آتی ہے۔
ماحولیاتی تحفظ کے لیے بنائے گئے ادارے یا تو فنڈز کی کمی کا شکار ہیں یا انتظامی نااہلی کے باعث اپنے فرائض سے غافل ہیں۔ محکمہ ماحولیات کے ذمے صنعتی فضلے کی نگرانی، فضائی معیار کی جانچ اور شہری منصوبہ بندی میں ماحول دوست اقدامات کی نگرانی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے کوئی بھی کام مؤثر طریقے سے انجام نہیں دیا جا رہا۔ فیکٹریاں بغیر کسی احتساب کے زہریلا فضلہ ندی نالوں میں بہا دیتی ہیں،گاڑیاں بغیر فٹنس سرٹیفکیٹ کے سڑکوں پر دوڑتی ہیں اور تعمیراتی منصوبے درختوں کو کاٹ کر کنکریٹ کے جنگل کھڑے کر دیتے ہیں۔
ماہرینِ ماحولیات کے مطابق، ایک درمیانے سائز کے درخت کی روزانہ آکسیجن پیدا کرنے کی صلاحیت تقریباً دس افراد کی سانس کے لیے کافی ہوتی ہے۔ جب ہزاروں درخت کاٹ دیے جائیں اور ان کی جگہ کنکریٹ ڈال دی جائے تو لازمی طور پر فضاء میں آلودگی بڑھے گی، درجہ حرارت میں اضافہ ہوگا، اور شہری زندگی مزید مشکل ہو جائے گی۔
لاہور میں اس کی واضح مثال موجود ہے جہاں درختوں کی کٹائی اور گرین بیلٹس کے خاتمے کے بعد موسمِ سرما میں اسموگ ایک مستقل عذاب بن چکا ہے۔
بچے، بوڑھے اور مریض سانس کی بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں، اسکول بند کرنا پڑتے ہیں، پروازیں منسوخ ہو جاتی ہیں، اور ٹریفک حادثات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ماحولیاتی آلودگی کے معاشی اثرات بھی کم نہیں۔ عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی معیشت کو سالانہ اربوں روپے کا نقصان صرف ماحولیاتی آلودگی کے باعث ہو رہا ہے۔ زرعی پیداوار متاثر ہو رہی ہے، صحت کے اخراجات بڑھ رہے ہیں، اور توانائی کے استعمال میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جب فضائی آلودگی بڑھتی ہے تو شہریوں کی کام کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے، بیماریاں بڑھتی ہیں، اور نتیجتاً قومی معیشت پر بوجھ بڑھتا ہے۔
محکمہ ماحولیات کو صرف رپورٹیں تیار کرنے تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ اسے فعال نگرانی کا اختیار دیا جائے۔ صنعتی فضلہ پھینکنے والی فیکٹریوں پر بھاری جرمانے عائد کیے جائیں، غیر معیاری گاڑیاں سڑکوں سے ہٹائی جائیں، اور تعمیراتی منصوبوں میں گرین اسپیس کو لازمی قرار دیا جائے۔ اگر قوانین سخت ہوں اور ان پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے تو صورتحال میں نمایاں بہتری آ سکتی ہے۔
وزارتِ ماحولیات کو اپنے اہداف حقیقت پسندانہ بنیادوں پر ازسرنو طے کرنے کی ضرورت ہے۔ محض بڑے بڑے منصوبوں کا اعلان کرنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر صوبے، ہر ضلع اور ہر شہر کے لیے علیحدہ ماحولیاتی ایکشن پلان تیار کیا جائے۔ اس کے لیے جدید ٹیکنالوجی، سیٹلائٹ ڈیٹا اور بین الاقوامی تجربات سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔اس پس منظر میں پاکستان کے لیے یہ وقت فیصلہ کن ہے۔
حکومت، ماہرین، کسان، صنعت کار اور عوام سب کو اس بحران کے حل میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ پانی کے ضیاع کو روکنا، تحفظ کے اصولوں پر عمل درآمد اور پائیدار ترقی کی سمت میں قدم بڑھانا اب محض انتخاب نہیں بلکہ بقاء کی شرط ہے۔ عالمی بینک کی رپورٹ ایک انتباہ ہے، ایک موقع بھی کہ پاکستان اپنے آبی نظام کو ازسرِنو ترتیب دے، تاکہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک محفوظ اور خوشحال مستقبل یقینی بنایا جا سکے۔