مجوزہ 27 ویں آئینی ترمیم

آئین وہ بنیادی دستاویز ہوتی ہے جو کسی بھی ملک کے نظم و نسق چلانے کی اساس ہوتی ہے۔ ملک کے تمام ادارے آئین میں دیے گئے طریقہ کار کے مطابق وجود میں آتے ہیں اور اس کے مطابق اپنے اپنے فرائض آئینی دائرہ کار میں رہتے ہوئے ادا کرتے ہیں۔ دنیا کے تمام مہذب جمہوری ملکوں میں آئین کے تحت امور مملکت چلائے جاتے ہیں۔

آئین و قانون کا ہر صورت احترام کیا جاتا ہے، کسی ادارے، فرد یا سربراہ کی طرف سے دانستہ یا غیر دانستہ طور پر آئین سے انحراف کا تصور بھی نہیں کیا جاتا۔ آئین تمام حالات میں مقدم اور مقدس خیال کیا جاتا ہے۔ آئینی و قانونی ماہرین بجا طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ آئین کے بغیر، ریاست، سیاست اور عدالت کا وجود ممکن نہیں اور آئین و قانون کے طریقہ کار سے باہر کا کوئی عمل قابل قبول نہیں ہوتا۔ وہ ہر صورت تنقید کی زد میں رہتا ہے۔ پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں آغاز ہی سے آئین کی تشکیل کا عمل زبوں حالی کا شکار رہا ۔

تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ آزادی کے بعد فوری طور پر آئین کی تشکیل کا کام کیا جانا چاہیے تھا تاکہ اول دن سے کاروبار سلطنت کو آئین کے تحت چلایا جاسکے لیکن آزادی حاصل کرنے کے 9 سال بعد تک آئین کی تشکیل کا کام تعطل کا بار بار شکار ہوتا رہا۔ بعض عاقبت نااندیش سیاسی زعما نے آپس کی کشمکش و رنجش کے باعث ملک کے عوام آئین و قانون کی فضا سے بے بہرہ رہے، ان کے حقوق کے آئینی و قانونی تحفظ کا کوئی وجود نہ تھا، عبوری احکامات سے ملک کا نظم و نسق چلایا جا رہا تھا۔

قیام پاکستان کے 9 سال بعد 23 مارچ 1956 کو ملک میں پہلے آئین کا نفاذ عمل میں آیا اور ملک میں پارلیمانی طرز حکومت رائج کیا گیا، لیکن محلاتی سازشوں کو سیاست دانوں کی آپس کی رنجشوں اور بیورو کریسی کے عمل دخل کے باعث 1956 کا آئین اپنی روح کے مطابق پوری طرح کامیابی سے پارلیمانی نظام کو تحفظ دینے میں ناکام رہا، جس کا فائدہ غیر سیاسی قوتوں نے اٹھایا اور 9 اکتوبر 1958 کو گورنر جنرل اسکندر مرزا نے ملک کے فوجی سربراہ جنرل ایوب خان کے مشورے سے آئین منسوخ کر دیا اور پورے ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا۔

مرکزی و صوبائی اسمبلیوں کو توڑ کر حکومتیں ختم کر دی گئیں۔ جنرل ایوب خان کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیا گیا۔ صرف 20 دن بعد ہی جنرل ایوب خان نے اسکندر مرزا کو برطرف کر کے عہدہ صدارت بھی خود سنبھال لیا، یوں ملک میں قائد اعظم کے جمہوری نظام کا خاتمہ کرکے پہلی مرتبہ غیر جمہوری قوتوں نے اقتدار پر مکمل قبضہ اور کنٹرول حاصل کر لیا۔ ایوب نے خان بوڈو اور ایبڈو قانون کے تحت نامور سیاستدانوں کو میدان سیاست سے باہرکردیا اور یکم مارچ 1962 کو ملک میں نیا آئین نافذ کرایا، لیکن یہ ملک کے دونوں حصوں یعنی مشرقی اور مغربی پاکستان کو جوڑے رکھنے میں ناکام رہا۔ آمریت سے مشرقی پاکستان کے عوام نالاں تھے۔

بنگال کے لیڈر شیخ مجیب الرحمن کے چھے نکات نے عوام میں منفی جذبات کو ہوا دی اور مرکزی حکومت کے خلاف بغاوت کی چنگاریاں شعلہ بننے لگیں۔ ایوب خان کو اقتدار چھوڑنا پڑا۔ پھر جنرل یحییٰ خان نے ان کی جگہ صدارت سنبھال لی لیکن وہ بھی حالات سنبھالنے میں ناکام رہے اور اس کا فائدہ دشمن ملک بھارت نے اٹھایا اور 1971 میں پاکستان پر حملہ کر کے ملک دولخت کر دیا۔ سقوط بنگال کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے ملک کا اقتدار سنبھالا، ان کا سب سے بڑا کارنامہ 1973 کا متفقہ آئین تھا جو آج بھی ملک کے پارلیمانی نظام کی اساس ہے، لیکن اس آئین میں اس قدر ترامیم کی گئی ہیں کہ اس کا بنیادی ڈھانچہ ڈگمگانے لگا ہے۔ جنرل ضیا الحق سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک اور نواز شریف سے لے کر آج تک 1973 کے آئین کو بار بار ترامیم کے کچوکے لگا کر بازیچہ اطفال بنا دیا گیا ہے، بدقسمتی یہ کہ ہماری عدالتیں بھی آئینی ترامیم اور اس کے سرپرستوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ’’نظریہ ضرورت‘‘ کا جواز فراہم کرتی رہیں۔ 26 ویں آئینی ترمیم اس کی تازہ مثال ہے ۔

پی پی پی اور (ن) لیگ کی حکومت نے کس طرح جبری طور پر پارلیمان سے 26 ویں ترمیم رات کے اندھیرے میں منظور کرائی، سب جانتے ہیں اپوزیشن آج بھی سراپا احتجاج ہے۔ اب 27 ویں ترمیم کا ڈول ڈالا جا رہا ہے۔ آج بھی اپوزیشن اتحاد 27 ویں ترمیم پر معترض ہے لیکن پی پی پی اور (ن) لیگ 27 ویں ترمیم کی منظوری پر بضد ہیں لیکن پوری قوم دیکھے گی کہ قومی مفاد کے نام پر 26 ویں ترمیم کی طرح ’’ایکشن ری پلے‘‘ کا مظاہرہ ہوگا اور 27 ویں ترمیم بھی دونوں ایوانوں سے منظور کرا لی جائے گی۔ اپوزیشن کا احتجاج رنگ لاتا نظر نہیں آ رہا ہے۔

Similar Posts