ملک میں دن بدن نہ صرف روایتی ڈشز کی مانگ بڑھ رہی ہے بلکہ جدت اور کھانوں میں تخلیقی پن کو بھی پاکستانی شیفس اور ریستوران بڑی تیزی کے ساتھ اپنا رہے ہیں۔ یہ بڑھتے ٹرینڈز نہ صرف ذائقے کو نئی جہت دیتے ہیں بلکہ ملک بھر میں خوراک کی ثقافتی ہم آہنگی کو بھی ظاہر کرتے ہیں۔
اس حوالے سے ایک نمایاں رجحان فیوژن کھانوں کا ہے، یعنی پاکستانی مسالوں کو بین الاقوامی ڈشز کے ساتھ ملا کر نئے اور دلچسپ ذائقے بنانا اور اس دوڑ میں شیف اب روایتی بریانی کو سوشی رول، یا چکن تکہ کو سینڈوچ میں تبدیل کر رہے ہیں، جو نوجوان اور جدت کے دلدادہ افراد میں کافی مقبول ہو رہا ہے۔
صحت کا شعور بڑھنے کے نتیجے میں پاکستان میں پلانٹ بیسڈ اور کم کارب کھانے بھی تیزی سے اپنا مقام بنا رہے ہیں۔ لوگ اب ایسے کھانے تلاش کر رہے ہیں جو پروٹین سے بھرپور ہوں مگر گوشت کی مقدار کم ہو اور اسی رجحان نے ریسٹورانٹس کو جکوینو، فلیکسسیڈ یا سبزیوں پر مبنی متبادل پکوان شامل کرنے کی ترغیب دی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ملک میں فوڈ اسٹریٹس جا بجا نظر آ رہی ہیں۔ روایتی گلیوں کے کھانے والے اسٹال اب ہائیجین پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں اور نئے فاسٹ فوڈ ٹرک جیسے چیس نان برگر، تندوری موموز اور دیسی اسپائسی شوارما پیش کر رہے ہیں۔ ان ڈشز میں مقامی مسالے استعمال کیے جا رہے ہیں تاکہ جدید انداز اور مزہ دونوں کو برقرار رکھا جائے۔
ایک اور قابل ذکر ٹرینڈ پائیداری اور ماحولیاتی شعور بھی ہے۔ یعنی ریستوران اب بائیوڈیگریڈیبل پیکیجنگ استعمال کر رہے ہیں اور معیاری اجزا کا استعمال کرکے ماحول سے منفی اثرات کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ کلاؤڈ کچن بزنس ماڈل بھی بڑھ رہا ہے، جس سے کم خرچ اور کم فضلہ پیدا ہوتا ہے۔
ہمارے ہاں روایتی اور علاقائی ڈشز کی بھی مقبولیت اب بھی اپنی جگہ برقرار ہے۔ مثال کے طور پر بنوں پلاؤ (پختونخوا کا مشہور پلاؤ) اور سائی بھاجی (سبزیوں، چاول اور دال کا ملا جلا سالن) کئی علاقوں میں پسند کیا جا رہا ہے۔ ان پکوانوں میں وہ دیسی ذائقے اور غذائیت دونوں ہیں جن کی مقبولیت کبھی کم نہیں ہوتی۔